پرانے وقتوں میں ذرائع نقل و حمل نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے،پیدل یا پھر گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں پر سفر طے کرنا معمول تھا، ٹرانسپورٹ کی جدید ترین سہولتیں نہ ہونے کے باعث خطہ پوٹھوہار میں شادی بیاہ کے مواقع پرنزدیک ہو یا دورباراتی پیدل ہی سفر طے کر کے دلہن والوں کے گھر پہنچتے تھے،سفر کی تھکان کے باعث اسی دن بارات کی واپسی ناممکن ہوتی تھی،چنانچہ باراتیوں کا دلہن والوں کے گھر ایک رات قیام ناگزیز ہوتا تھا، دولہا اور اسکے دوست اگر دلہن کی سہیلیوں اوردیگر رشتے دار خواتین کی شرارتوں سے رات بچ جائیں تو صبح سویرے دلہن کی سہیلیاں چُوری کے تھال سمیت دولہے اور اسکے دوستوں کی قیام گاہ میں آ دھمکتیں،ہاتھوں سے چھونے یا آواز دینے کی بجائے کپاس کی ٹہنی یا پھر توت کی چھڑی سے دولہا اور اسکے دوستوں کو جگایا جاتا،دولہا اور اسکے دوست جب ہاتھ منہ دھو کر آتے تو انہیں ”ایک اور دریا کاسامنا ہوتا“دیسی گھی میں بنی ہوئی چوری جس تھال یا پرات میں پڑی ہوتی،اس تھال یا پرات کے اوپر تیل یا گھی سے تربتر سٹیل کے کٹورے کواُلٹا کر کے رکھ دیا جاتا اور دولہا کے سامنے یہ شرط رکھی جاتی کہ پہلے اسے ایک ہاتھ سے اٹھا کر دکھاؤ پھر چوری کھانے کے حق داربنو گے،سیانے دولہے اپنے ہاتھوں کو آس پاس موجود مٹی میں ڈال کرخشک کرتے یا پھر ٹیلکم پاؤڈر ہاتھوں پر مل کر کٹورا اٹھا لیتے،مٹی یا پاوڈر تیل کو جذب کر لیتا اور یوں کٹورا ایک ہاتھ سے آسانی کیساتھ اٹھا لیا جاتا۔چُوری کا یہ آئیٹم خالصتاََدلہن کے گھر والوں کی طرف سے ہوتا تھا،چوری کی رسم میں بھی آج کل جدت آچکی ہے،بارات اسی دن واپس ہوتی ہے اس لیے بارات کے دلہن کے گھر پہنچتے ہی چائے پانی کے بعد دلہن کی والدہ ایک آدھ رشتے دار خاتون کیساتھ دولہے کے پاس آتی اوربغیر کسی شور شرابے اور ہلے گلے کے دولہا کو چُوری کھلا کر واپس لوٹ جاتی ہیں۔
کالم نگار کی دیگر تحریریں پڑھیں
دلہن کی سہلیوں کو قبل از وقت معلوم ہوتا ہے کہ دولہے کے شاہ بالے کتنے ہیں،اسی مناسبت سے دلہن کی سہیلیاں اتنے ہی مٹھائی کے ڈبے لاتی ہیں اور بارات والے دن چوری کی رسم کیساتھ ہی یاپھر بعد ازاں دولہے کے ہر شاہ بالے کو ایک ایک مٹھائی کا ڈبہ دیا جاتا ہے اور پھر اس کے بدلے ”لاگ“کی صورت میں مخصوص رقم طلب کی جاتی ہے جو دولہے کے تمام شاہ بالے،ہر سہیلی کو دیتے ہیں، یہ مٹھائی کے ڈبے ان شاہ بالوں کی ملکیت ہوتے ہیں جو چاہیں تو وہیں کھول کر کھالیں یا پھر گھر لے جائیں۔جب مٹھائی کا زمانہ عام نہیں ہوا تھا تو اس زمانے میں دلہن کی سہیلیاں دھاگے میں چھوہارے پرو کر آٹھ یا دس مالائیں بنا لی جاتی تھیں اور انکوپھر دولہا کے شاہ بالوں کو پہنا یا جاتا تھا اور اس کے بدلے ”لاگ“کی صورت پیسے وصول کیے جاتے تھے۔مٹھائی کا ایک اور ڈبہ جو دولہا کے خاندان کی جانب سے ساتھ لایا جاتا ہے اسکو”کہھلاٹی“کہتے ہیں، بارات کے دلہن کے گھر یا آس پاس پہنچتے یا آبادی شروع ہوتے ہی پہلے گھر سے دولہے کو جو دودھ پلانے کیلئے خاتون یا کوئی مرد آتا ہے،دودھ پلانے کے بعد وہ یہ ”کہھلاٹی“طلب کرتا ہے جس پر مٹھائی کا یہ ڈبہ اسکے حوالے کر دیا جاتا ہے۔بارات دروازے پر پہنچتے ہی بعض علاقوں میں پہلے پہل قریبی مکانات کی چھتوں سے چھوٹی چھوٹی کنکریاں یا پھر ”تہھرکانوں“جو دھریک کا پھل ہوتاہے دولہا سمیت تمام باراتیوں پر پھینکے جاتے تھے،پھر اس میں تبدیلی آئی اور چھوہارے،مکھانے اور چنے پھینکے جانے لگے،ان کنکریوں،تہھرکانوں یا پھر چھوہاروں کو روکنے کیلئے دولہا کے شاہ بالے،بھائی یا پھر رشتے دار پہلے ہی متحرک ہوتے تھے اور جیسے ہی ”اوپر“سے وار کیا جاتا تودولہا نے جو کڑھائی والی سرخ چادریا دوپٹہ اوڑھا ہوتاہے اسے کھول کر چاروں کو نوں سے شاہ بالے،یا دولہے کے بھائی یا پھر دیگر رشتے دار پکڑ لیتے،دولہا اس چادریا دوپٹے کے نیچے ہوتا تھا جس سے وہ ان کنکریوں، تہھرکانوں یا پھر چھوہاروں سے بچ جاتا اور یہ تمام اشیاء اس چادریا دوپٹے پر جمع ہوجاتیں،گئے وقتوں میں دولہا کا یہ سرخ دوپٹہ یا چادرگھروں میں ہی خواتین خصوصی طور پر کڑھائی کا سامان منگوا کر خود بہت چاؤ سے تیار کرتی تھیں،بعض علاقوں میں دولہا کا کوئی شاہ بالا، رشتے دار یا پھر کوئی پھرتیلا لڑکا اپنے ساتھ ایک چھتری رکھتا تھاجو حسب موقع استعمال کرکے دولہے کو اس آفت سے بچاتا تھا، اب جدیددور میں دلہن کی سہیلیاں اور دیگر عزیزو اقارب قطار اندر قطار کھڑے ہوکردولہا اور باراتیوں کا پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے استقبال کرتے ہیں۔
کالم نگار کی دیگر تحریں پڑھیں
پوٹھوہار میں شادیوں کے مواقع پر ہر رسم کیلئے جہاں درجنوں لوک گیت موجود ہیں وہیں پرچُوری اور چُوری کھانے کی رسم کی مناسبت سے بھی گیت موجود ہیں جو روٹین میں گائے جاتے ہیں۔ذیل میں چُوری کے موقع پرگائے جانیوالے دو پوٹھوہاری لوک گیت بطور نمونہ پیش کیے جارہے ہیں۔
اُٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
چناں تہھواڑا چانڑناں
اُٹھ جاغ مہھراجا…… ہوشے
اٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
چڑھیا خیری نال وے
اٹھ جاغ مہھراجا…… ہوشے
اٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
نالے چڑھیا تارا وے
اٹھ جاغ مہھراجا……ہوشے
اٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
چڑھیا گوڈا مار وے
اٹھ جاغ مہھراجا……ہوشے
اٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
چِٹی ہوواں کلبوتری
اٹھ جاغ مہھراجا…… ہوشے
اٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
اُڈی اُڈی چڑھساں گاش وے
اٹھ جاغ مہھراجا……ہوشے
اٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
پانڑیں جُلی آں کھوہے
اٹھ جاغ مہھراجا…… ہوشے
اٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
نیڑے بسیں یا دور
اٹھ جاغ مہھراجا…… ہوشے
اُٹھ جاغ مہھراجا جاغ چوری آئی آ
دیہ سہیلیاں کی لاغ جنھاں بنائی آ
(ترجمہ:دولہا میاں جاگو چوری آئی ہے،دلہن کی ان سہیلیوں کو معاوضہ دو جنہوں نے یہ چوری بنائی ہے،چاندخیریت کا نکلا ہے،چاندنی دور دور تک پھیلی ہے،ساتھ تارا بھی نکلا ہوا ہے، کاش میں سفیدکبوتری ہوتی اور دور گگن کے پار اڑ اڑ کر جاتی، میں کنویں سے پانی بھرنے جارہی ہوں،دور رہو یا پاس مجھے تم سے محبت ہے،دولہا میاں جاگو چوری آئی ہے،دلہن کی ان سہیلیوں کو معاوضہ دو جنہوں نے یہ چوری بنائی ہے۔لاغ یا لاگ وہ رقم ہوتی ہے جو مختلف رسوم کی ادائیگی پر دولہا کی جانب سے دلہن والوں کو دی جاتی ہے،اسی گیت میں بعض علاقوں میں سہیلیوں کی جگہ سالیوں اور ساس کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے،پوٹھوہار کے اکثرعلاقوں میں جاغ کو جاگ اور لاغ کو لاگ بھی بولتے ہیں)
……
مہھراجا وے پُھلاں نیاں شاہ بالیا وے
چھٹیاں مار جغا ریئی آں
مہھراجا وے پھلاں نیاں شاہ بالیا وے
کی جانڑاں ماہی کوٹھے سُتڑا
شالا جیوے کوٹھے سُتڑا
گیٹے مار جگا ریئی آں
مہھراجا وے پھلاں نیاں شاہ بالیا وے
چھٹیاں مار جغا ریئی آں
مہھراجا وے……
کی جانڑاں ماہی پھلاں دا شونقی
شالا جیوے پھلاں دا شونقی
بیہڑے باغ لوا ریئی آں
مہھراجا وے پھلاں نیاں شاہ بالیا وے
چھٹیاں مار جغا ریئی آں
مہھراجا وے……
کی جانڑاں ماہی پیدل ٹُرناں
شالا جیوے پیدل ٹُرناں
پنڈیوں کار منگا ریئی آں
مہھراجا وے پھلاں نیاں شاہ بالیا وے
چھٹیاں مار جغا ریئی آں
مہھراجا وے……
کی جانڑاں ماہی پُہھکھے ناں کاہلا
شالا جیوے پُہھکھے ناں کاہلا
لڈو تھال منگا ریئی آں
مہھراجا وے پھلاں نیاں شاہ بالیا وے
چھٹیاں مار جغا ریئی آں
مہھراجا وے……
کی جانڑاں ماہی بنھی ناں باشہ
شالا جیوے بنھی ناں باشہ
تاڑی مار اُڈا ریئی آں
مہھراجا وے پُھلاں نیاں شاہ بالیا وے
چھٹیاں مار جگا ریئی آں
مہھراجا وے پھلاں نیاں شاہ بالیا وے
(ترجمہ:اے دولہا میاں،اے پھولوں کے شاہ بالے،چھٹیاں مار کر تمہیں جگا رہی ہوں،کیا خبر میرا محبوب چھت پر سویا ہو،اللہ اسے خیریت سے رکھے،چھوٹے چھوتے پتھر پھینک کر اسے جگا رہی ہوں،کیا خبر میرا محبوب پھولوں کا ہی شوقین ہو،اللہ اسے خیریت سے رکھے،اس کے لیے میں نے صحن میں باغ لگوا لیا ہے،کیا خبر میرا محبوب پیدل نہ چل سکتا ہو،اللہ اسے خیریت سے رکھے،پنڈی سے اس کیلئے کار منگوائی ہے،کیا خبر میرا محبوب بھوک برداشت نہ کر سکتا ہو،اللہ اسے خیریت سے رکھے۔اس کے لیے میں نے لڈو بھرا تھال منگا لیا ہے،کیا خبر میرا محبوب تالاب کا پتنگا ہو،اللہ اسے خیریت سر رکھے،تالی بجا کر اسے اڑا رہی ہوں،اے دولہا میاں،اے پھولوں کے شاہ بالے،چھٹیاں مار کر تمہیں جگا رہی ہوں۔شاہ بالا۔ دولہا کا دوست (پنچارا، پچارا)،چِھٹیاں۔ تل اور کپاس کے خشک پودے جن سے پھل اتار لیا جاتا ہے،سُتڑا۔ سویا ہوا،گِیٹے۔ چھوٹے چھوٹے پتھر،شونقی۔ شوقین،کاہلا /کاہلگی۔ بیکل، بے چینی ظاہر کرنے والا / بیکلی، بے چینی، بیقراری،بنھ۔ تالاب۔۔۔ بنھی ناں۔۔۔ تالاب کا،باشہ۔ پتنگا جو پانیوں کے قریب رہتا ہے۔)
مضمون نگار پوٹھوہاری زبان کے شاعر،محقق اور روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد میں سب ایڈیٹر ہیں۔