سینٹر مشتاق احمد خان‘اڈیالہ سے اسرائیلی جیل تک


سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب کے بارے میں مضمون لکھنے سے پہلے ان کے لیے ایک شعر کہنا چاہتا ہوں
نگاہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
یہ شعر حقیقی معنوں میں سینٹر مشتاق احمد خان پر صادق آتا ہے۔ کوئی لفاظی نہیں، کوئی بڑھا چڑھا کر بات نہیں کر رہا، میرا اللہ گواہ ہے کہ بندہ ناچیز نے اس شخص کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے، پرکھا ہے، ان کے ساتھ وقت گزارا ہے، کھانا کھایا ہے، سفر کیا ہے۔ ہر لحاظ سے بندہ ناچیز نے اس شخص کو ایک بے مثال، با کردار، اور امت مسلمہ کے لئے انتہائی درد دل رکھنے والا پایا ہے۔ کیونکہ ہماری اس بے مروّت دنیا کے اندر کوئی سیاست کے لیے اپنے اپ کو آگے کرتا ہے۔ کوئی شخصیت کے لیے اپنے آپ کو آگے کرتا ہے۔ کوئی پارٹی بازی کے لیے اپنے آپ کو آگے کرتا ہے۔ کوئی روپیہ پیسہ بنانے کے لیے دین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یقین مانیں جب لوگوں کو یہ پتہ چلتا ہے کہ الحمدللہ ہمارا سینیٹر مشتاق صاحب کے ساتھ تعلق ہے تو لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں سینٹر مشتاق احمد خان یہ سب کچھ اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کر رہا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ شہرت حاصل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کرتا ہے۔ اب دنیا والوں کا بھی قصور نہیں ہے کیونکہ انہوں نے لوگوں کو آگے آتے ہوئے دیکھا ہے۔ اپنی سیاست چمکاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اپنے آپ کو مشہور کرنے کے لیے ایک دوسرے کو روندتے ہوئے دیکھا ہے۔ تو لہذا ریاکاری کی اس دنیا کے اندر لوگوں کا یہ سوچنا اور یہ کہنا حق بجانب ہے کہ کوئی شخص اتنی زیادہ جدوجہد بغیر کسی مقصد کے کیسے کر سکتا ہے؟ بس یہاں پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس شخص نے اللہ کی رضا کو اپنا مقصد بنا لیا ہو، پھر اس کے سامنے دنیا کی سیاستیں، دنیا کی شہرتیں، دنیا کا روپیہ پیسہ، بینک بیلنس، یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ پھر وہ دنیا میں اپنے مقام اور مرتبے کو نہیں چاہتا بلکہ وہ یہی چاہتا ہے کہ اللہ کا کلمہ سر بلند ہو جائے۔ یقین مانئے پہلے لوگ ہماری بات پر یقین نہیں کرتے۔۔۔ لیکن جب وہ ہمارے کہنے پر سینٹر صاحب سے ملاقات کرتے ہیں، ان سے ملتے ہیں، ان کے قریب ہوتے ہیں، ان سے سوال جواب کرتے ہیں، تو پھر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ قاری صاحب آپ نے بالکل صحیح کہا یہ بندہ نہ اپنی سیاست چمکانا چاہتا ہے۔ نہ اپنی شہرت چاہتا ہے۔ نہ اس کا دنیاوی کوئی اور مقصد ہے۔
غزہ و فلسطین کے حوالے سے مسلسل دو سال تک ہمیں سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب کو بڑے قریب رہ کر دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ سیو غزہ کمپین کے تحت چاہے وہ غزہ بچا¶ دھرنا، جو مسلسل 40 دن تک ڈی چوک جسے ہم“غزہ چوک”کہتے ہیں، پردیا جانے والا دھرنا ہو۔ پھر اپنی بیوی بچوں کو لے کر اسلام آباد، راولپنڈی کی سڑکوں پر مسلسل کھڑے ہو کر غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی آواز مسلسل بلند کرتے رہنا اور ریاست کا ہر قسم کا جبر برداشت کرنا ہو۔ پولیس کا اس کے اوپر ڈنڈے برسانا، اس کو مارنا، زد و کوب کرنا، اس کو گاڑی میں بند کر کے حوالات میں بند کرنا، جیلوں میں بند کرنا، اس کے اوپر مقدمات قائم کرنا، جھوٹی ایف آئی ار درج کرنا، ایک لمبی چوڑی فہرست ہے۔ سینٹر مشتاق احمد خان نے خواب میں بھی جو چیز نہیں سوچی ان پرچوں کے اندر اس کا درج کرنا، اسے دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرنا، اور انہیں تھریٹ کرتے تھے۔ دھمکیاں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ بیوی بچوں کو اغوا کرنے کی اس بندے کو دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ لیکن اس بندے کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ جب بھی یہ بندہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر فلسطین اور غزہ کے احتجاج کے لیے سڑک پر نکلتا تو ہم ساتھی آپس میں یہی باتیں کیا کرتے تھے کہ شاید یہ اس بندے کی آج آخری رات ہو۔ ہم اپنے طور پر اپنی سیکورٹی انہیں دیا کرتے تھے لیکن اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان دو سالوں میں سینٹر مشتاق احمد خان صاحب کے ساتھ رہتے ہوئے اتنی یادیں ہیں اور اتنی باتیں ہیں کہ اگر لکھنا شروع کروں تو شاید کتاب بن جائے۔ اور الحمدللہ قارئین کرام کی خدمت میں یہ گزارش بھی ہے کہ الحمدللہ کچھ یادیں اور باتیں سینٹر مشتاق احمد خان صاحب کے حوالے سے درج کر رہا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں کتابی شکل عطا فرما دے آمین۔
یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ جتنی باتیں یہاں درج کی جا رہی ہیں اصل تعریف صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی ہے۔ جس کی توفیق کے بغیر ایک سانس بھی نہیں لیا جا سکتا۔ اور ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکتا۔ ماشائاللہ جب بھی ہم سینٹر صاحب کے بارے میں کوئی تعریفی کلمات کہتے ہیں تو وہ ہمیشہ آگے سے یہی جواب دیتے ہیں کہ قاری صاحب یہ اللہ کی توفیق سے ہی ہو گیا، ورنہ ہم اس قابل نہیں اور یہی حقیقی بات بھی ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ اس چیز سے لگائیں کہ جب سینٹر مشتاق احمد خان صاحب اسرائیلی جیل سے رہا ہو کر واپس آئے تو اسی دن پارلیمنٹ کے چھ ارکان، یعنی پارلیمنٹیرینز ان کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے جب آئے اور انہوں نے ان کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا کہ سینیٹر صاحب آپ نے پوری قوم کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے تو یقین مانیں سینٹر مشتاق احمد خان صاحب کے منہ سے یہی الفاظ نکلے کہ یہ سب اللہ کی توفیق سے ہو گیا وگرنہ میں اس قابل نہیں تھا۔ اور یہ ساری گفتگو اور باتیں اس بندہ ناچیز کے سامنے ہوئیں۔سادگی اور عاجزی کا تو یہ عالم ہے کہ دھرنے میں سڑک پر ہی بیٹھ جاتے، نماز ادا کرتے، اور زمین پر ہی کھانا کھاتے۔ بچوں کے ساتھ انتہائی محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔ انہیں چومتے ہیں، گلے لگاتے ہیں، گود میں اٹھا لیتے ہیں۔ سر پر ہاتھ پھیرتے اور دعا¶ں سے نوازتے ہیں۔جب اڈیالہ جیل میں گرفتار ہوئے تو جو بھائی ان کے ساتھ تھے وہ بتانے لگے کہ انہیں بی کلاس میں جانے کے لیے کہا گیا۔اور ساتھیوں کو تھرڈ کلاس میں تو سینٹر صاحب نے کہا کہ میں اپنے بھائیوں اور ساتھیوں کے ساتھ ہی رہوں گا۔ میں نے اپر کلاس میں نہیں جانا اور حکومت کی طرف سے جیل کی اعلیٰ آسائشوں کو اپنے بھائیوں کے لیے ٹھکرا دیا۔تو ہم بات کر رہے تھے کہ سینٹر مشتاق احمد خان صاحب اپنے دل کے اندر امت مسلمہ کا بے انتہا درد رکھتے ہیں۔ اسی لیے تو غزہ کی ایک مضبوط اور توانا آواز، ترجمان غزہ، محترم جناب جلال الفرا صاحب جو کہ چیئرمین فلسطین فا¶نڈیشن اسلام آباد پاکستان ہیں، انہوں نے سینیٹر صاحب کو غزہ کے یتیم بچوں کا باپ اور سرپرست قرار دیا ہے اور وہ انہیں“سفیر فلسطین”کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہی تو امت مسلمہ اور غزہ کے معصوم بچوں کا وہ درد ہے، جو انہیں سات سمندر پار لے گیا۔ اور اسی کے لیے انہوں نے اسرائیلیوں کا ہر طرح کا جبرو تشدد اور ظلم و ستم برداشت کیا۔گلوبل صمود فریڈم فلوٹیلا کی پوری کہانی، سمندر کا سفر، غزہ سے صرف 40 کلومیٹر دور، ان کی اسرائیلی ظالموں کے ہاتھوں گرفتاری، بعد میں ان کی رہائی، یہ ایک بہت لمبا موضوع ہے اسے اگلی قسط میں ان شائاللہ بیان کریں گے۔

ابو عیسٰی قاری محمد شہزاد یلدرم