سیلاب زدگان

میرا بہت دل چاہ رہا ہے میں بھی دوسروں کی طرح ان سیلاب زدگان کی مدد کیلئیے کچھ لکھوں….. جن orgs میں میں بطور head of Content Team میں کام کر رہی ہوں وہ بار بار کہہ رہے کونٹنٹ ready کریں، لیکن پتہ نہیں میں لکھنے کی بہت کوشش کر رہی کہ میں ان متاثرہ لوگوں کی امداد کی اپیل کیلئیے کچھ لکھوں لیکن میرے الفاط میرا ساتھ نہیں دے رہے..
یہ بات نہیں کی مجھے اس سب کا افسوس نہیں.
مجھے بلکل افسوس ہے آئے دن سوشل میڈیا پر سکرولنگ کرتے ہوئے ان لوگوں کی ہی تصویریں ان کے حالات نظر آرہے ہیں..
یہ سب لکھتے ہوئے بھئ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے….
پورے ملک میں ڈونیشن ڈرائیوز چل رہی ہیں ان متاثرہ لوگوں کی مدد کیلئیے. ہر کوئی ان کیلئیے امداد مانگ رہا ہے.لوگ امداد کر بھی رہے ہیں لیکن ہماری ایلیٹ کلاس کو زرا احساس نہیں ، ذرا رحم نہیں آتا ، ذرا افسوس نہیں انہیں کہ ہمارا ملک کن حالات سے گزر رہا ہے. ہمارے حکمران جو اپنے فائدے کیلئیے تو سڑکوں پر نکل سکتے ہیں ، عوام کو اپنے جلسوں میں شرکت کیلئیے تگنی کا ناچ تو نچوا سکتے ہیں. لیکن ان پسماندگان کیلئیے کچھ نہیں کر سکتے. کیا ہمارے حکمران یہ بھول گئے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں ، یہ وہی عوام ہے جو کل آپکے جلسوں میں آپکے لیئے نعرے لگاتی ہے ، آپکو سپورٹ کرتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس عوام کئ وجہ سے ہئ آپ اس طاقت ور اونچی کرسی پر براجمان ہیں.
آج وہی عوام جو آپکو سپورٹ کرتئ ہے، ڈوب رہی ہے ، سب کو پتہ ہے اس وقت تک کتنا جانی و مالی نقصاں ہو چکا ہے.. لیکن پھر بھی مجھے ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس امداد کی فراہمی نظر نہیں آئی.
یہ محلوں میں رہنے والے بھول چکے ہیں کہ اس ڈوبتی عوام ہی کی وجہ سے وہ ان محلوں میں رہنے کہ قابل ہوئے ہیں.
میں نے تیسری کلاس میں ایک تقریر کی تھی جس میں ایک لائن یہ تھی کہ ہمارا ملک تباہی اور بربادی کے دہانے ہر کھڑا ہے اس وقت مجھے اس لائن کو صرف اپنئ تقریر میں بولنا تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ کیا سچ میں واقعہ ہی ہمارا ملک تباہی اور بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے ،
لیکن میں آج ایک بار پھر کہہ رہی ہوں اور وثوق سے کہہ رہی کہ اس وقت حقیقت میں ہمارا ملک تباہی اور بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے ، یہ سب صرف مجھ نہیں بلکہ سب کو نظر آرہا ہے بلکہ مجھ سے زیادہ بہتر طریقے سے سب جانتے ہیں کہ واقعی ہمارا ملک تباہی کی دہانے پر کھڑا ہے اور ہمیں چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ آو اور مجھے بچاو . سیلاب زدگان آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ہے کوئی حکمرانوں میں سے جو ہماری مدد کو آئے. ہمارے لئیے کچھ کر سکے. بہت سے منسٹرز نے اپنے اپنے ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر فضائئ دورے کیئے ہیں اور مدد کیلئیے چیکس دئیے ہیں. اور ان کی نظر میں بس کام پورا ہو گیا ہے. وہ یہ بھی تو سوچیں کہ یہ چیک کتنے دنوں کے لیئے ان کی ضروریات کو پورا کرے گا.
بہت سی تنظیمیں اپنی طرف سے امداد فراہم کر رہی ہیں. سکولوں کالجوں میں پڑھنے والے بچوں مے والدین سے ڈونیشنز کی اپیل کی جا رہی ہے کی کم از کم کچھ تو امداد دیں لیکن…… لیکن یہ کہ وہ صرف اس وجہ سے مدد نہیں کر رہے کیونکہ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا پتہ جو ہم امداد دیں گے کیا وہ ان پسماندگان تک پہنچے فی بھئ یا نہیں…
مطلب یہ حالات ہیں ہماری عوام کے یہ سوچ ہے ہمارے لوگوں کی ان لوگوں کی جن کی آزادی کیلئیے ہمارے کتنے عظیم لوگوں نے اپنے سر دھڑ کی قربانی دی. جن کے لئیے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے تین سنہری اقوال کہے تھے
ایمان ، اتحاد اور تنظیم

اس وقت صرف اتحاد کئ ضرورت ہے ، بھائی چارہ کی ضرورت ہے، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اپنی سوچ کو بدلیئے ، اپنی نیتوں کو ٹھیک کئ جئیے کیونکہ “بےشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے”
شاید ہم عوام کی امداد اور ڈونیشن سے ہمارے حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیر جاگ جائیں کہ ہمارے ملک کی عوام جو اس مہنگائی میں اپنی بہت سی ضرورتوں کا خیال نہ کرتے ہوئے ان پسماندگان کی مدد کیلئیے پیش پیش ہے. شاید انہیں احساس ہو جائے.
انہیں احساس ہو جائے کہ ہم ایک ہیں. شاید وہ اس ایک ہونے کا تھوڑا سا خیال کر لیں.
کہنا مجھے بہت کچھ ہے لیکن اس سب کو اتنے قلیل وقت میں ایک کوزے میں بند کرنا بہت مشکل ہے
آخر میں صرف ایک ہی اپیل ہے کہ جتنا ہو سکتا یے کیجئیے کل کو یہ وقت آپ پر بھی آسکتا ہے.
دل کھول کر امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجئیے اور حکمرانوں تک بھی اس بات کو پہنچائیں کہ ہم ایک ہیں اس ملک کی باگ دوڑ اس وقت اپ جیسے امیروں کے ہاتھ میں یے تو لہذا اپنے رئیس ہونے کا ثبوت دیجئیے اور اپنے خزانوں کی چابیاں ، اپنے محلوں کے دروازے ان پسماندہ لوگوں کیلئیے کھول دیجئیے.

اپنا تبصرہ بھیجیں