مولانا محمد اسرارالحق/”خُلُق“ انسانی عادت کو کہتے ہیں۔ انسان جب اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو والدین کی تربیت، ارد گرد کے ماحول اور حالات و واقعات کے ذریعے اس کا مختلف عادات پر مشتمل ایک مزاج بن جاتا ہے۔ اخلاق اچھے بھی ہوتے ہیں اور اخلاق برے بھی ہوتے ہیں، اچھی عادت ہے سچ بولنا اور بری عادت ہے جھوٹ بولنا، اچھی عادت ہے انصاف کرنا اور بری عادت ہے ظلم کرنا، اچھی عادت ہے وعدہ پورا کرنا اور بری عادت ہے وعدہ توڑنا۔اچھی عادات کو بھی اخلاق کہتے ہیں اور بری عادات کو ایک انسان کی عادات صرف اسی پر اثر انداز نہیں ہوتیں بلکہ پوری سوسائٹی پر اثر انداز ہوتی ہیں اِس لیے کہ کوئی بھی انسان دنیا میں اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ایک انسان اگر دنیا میں باقی انسانوں سے کٹ کر تنہا رہنا چاہے تو یہ بات ممکن نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگیوں کے لیے اجتماعی معاشرہ بنایا ہے اور مل جل کر رہنے والی اور ایک دوسرے کے کام آنے والی سوسائٹی بنائی ہے۔ سب انسان مل کر اجتماعی اعمال سے گزرتے ہیں تو ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مثال کے طور پر میرے ہاتھ میں یہ ایک کاغذ ہے جس پر کچھ لکھا ہے یہ مجھ اکیلے کا کام نہیں ہے۔ اس کاغذ کے بننے میں خدا جانے کتنے لوگوں کا عمل دخل ہے، جس قلم سے لکھا گیا ہے اس کے بننے میں خدا جانے کتنے لوگوں کا عمل شامل ہے، قلم میں جو سیاہی ہے خدا جانے اس کے بننے میں کن کن لوگوں کی مہارت کار فرما ہے، اور پھر میری اس کاغذ پر لکھنے کی جو صلاحیت ہے خدا جانے اس کے پیچھے کن کن لوگوں کی محنت شامل ہے۔ تو اس کاغذ پر جو تحریر ہے یہ اتنے سارے لوگوں کی محنت اور عمل کے بعد وجود میں آئی ہے۔ کوئی بھی عمل دنیا میں ایسا نہیں ہے جو ایک انسان تنہا کر سکے، چنانچہ انسانوں کے اجتماعی اعمال سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے، اگر انسانوں کے مجموعی اعمال اچھے ہوں تو ایک اچھی سوسائٹی بنتی ہے لیکن اگر انسانوں کے مجموعی اعمال برے ہوں تو ایک بری سوسائٹی بنتی ہے۔یوں سمجھ لیں کہ انسانی معاشرہ ایک مشین ہے جس کے پرزے اِنسان ہیں۔ مشین کے اچھے یا برے ہونے کا دارومدار پُرزوں کے معیار پر ہے، پُرزے اچھے معیار کے ہوں گے اور جس انجینئر نے وہ مشین ڈیزائن کی ہے اس کی ہدایات کے مطابق ہوں گے تو ان پُرزوں سے مشین بھی اچھی بنے گی، لیکن اگر مشین کے اکثر یا بنیادی پُرزے خراب ہوں گے تو وہ مشین بیکار ہوگی۔ اسی طرح معاشرے کے اکثر لوگوں کی اور راہنما لوگوں کی اخلاق و عادات اچھی ہوں گی تو اس سے ایک اچھا معاشرہ بنے گا لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوگا تو ظاہر بات ہے کہ معاشرہ بھی بُرا ہی سامنے آئے گا۔ حضرات انبیاءؑ ؑکی تعلیمات کی بنیاد اسی بات پر ہے کہ انسان اس مشینری کا ایک صحیح اور کار آمد پرزہ بنے اور انسان کا ایمان، یقین اور اس کی عادات اچھی ہوں۔ اگر انسان کا خدا کی ذات پر یقین پختہ ہوگا تو اس کے اخلاق و اعمال اچھے ہوں گے اور یوں وہ معاشرے کا ایک مفید فرد بنے گا
سچائی
”سچائی“ اخلاق حسنہ میں سب سے پہلی عادت ہے۔ سچ بولنا اس دنیا کی سب سے بڑی خوبی ہے اور انسانی اخلاق و عادات میں سب سے اچھی عادت سچ بولنا ہے۔اسی طرح جھوٹ بولنا سب سے بری عادت ہے۔ ایک کافر شخص جناب نبی کریم ؐ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ایمان قبول کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بہت سی بری عادات ہیں۔ میں ایمان قبول کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن سب بری عادات یک دم نہیں چھوڑ سکتا البتہ ایک ایک کر کے چھوڑ سکتا ہوں۔ جناب رسول اکرمؐ نے اس شخص کی اس شرط پر راضی ہوتے ہوئے اسے کلمہ پڑھوایا اور اس شخص نے ایمان قبول کر لیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ میرے ساتھ وعدہ کرو کہ تم آج کے بعد جھوٹ نہیں بولو گے، اس نے کہا کہ ٹھیک ہے میرا آپ کے ساتھ وعدہ ہے کہ میں آج کے بعد جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اللہ کی قدرت دیکھیں کہ اس جھوٹ کے چھوڑنے سے اس شخص کی سب برائیاں یکے بعد دیگرے چھوٹتی چلی گئیں۔جناب رسول اللہؐ نے برائیوں کی ترتیب میں سب سے پہلے ”جھوٹ“ کا ذکر فرمایا۔ آپؐ نے اپنی تعلیم سے بتایا کہ اچھائیوں میں سب سے اچھی عادت ”سچائی” ہے جبکہ برائیوں میں سب سے بری عادت جھوٹ ہے۔ رسول اللہؐ کو پوری نسل انسانی میں ”اصدق الناس“ کہاجاتا ہے اور یہ کوئی مبالغے کی بات نہیں ہے کہ ہم اپنی عقیدت اور محبت کی وجہ سے ایسی بات کہہ رہے ہیں بلکہ یہ امر واقعہ ہے جس کی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی تصدیق کی ہے۔ حضورؐ کے سب سے بڑے دشمن دو تھے پہلے ابو جہل اور اس کے بعد ابو سفیان۔(ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ بعد میں مسلمان ہوئے تھے) رسول اللہؐ کے خلاف مکہ کے معاشرے کو لڑانے والے یہی دو بڑے تھے لیکن آنحضرت کے ایک سچا انسان ہونے کے بارے میں دونوں کی گواہی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔
ابو جہل سے کسی نے پوچھا کہ محمدﷺکے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ابوجہل نے اقرار کیا کہ محمد سچے آدمی ہیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ اگر وہ سچے ہیں تو تم مانتے کیوں نہیں ہو؟ ابوجہل نے کہا کہ یہ الگ بات ہے کہ میں نہیں مانتا یہ ہماری چودھراہٹ کا مسئلہ ہے لیکن محمدﷺایک سچے آدمی ہے۔ دشمن کی شہادت ہی اصل میں سب سے بڑی گواہی ہوتی ہے۔اس وقت کی سب سے بڑی سپر پاور رُوم کے بادشاہ قیصر کے دربار میں جب جناب محمدﷺکا خط پہنچا تو قیصرِ روم نے کہا کہ عرب معاشرے کا کوئی ایسا معتبر آدمی لاؤ جس کے ساتھ میں محمدؐ کے بارے میں بات کر سکوں۔ ابو سفیان بھی اتفاق سے ان دنوں تجارت کی غرض سے شام گئے ہوئے تھے چنانچہ قیصر روم کے دربار میں حضورؐ کا خط پڑھا گیا اَور ابو سفیان جو رسول اللہؐ کے اس وقت کے سب سے بڑے مخالف تھے انہیں قیصرِ روم کے دربار میں بلا کر پوچھا گیا کہ تمہارے علاقے کے ایک آدمی محمدؐ کا خط آیا ہوا ہے، میں اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ قیصرِ روم نے ابوسفیان سے جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی کے بارے میں جو سوالات کیے ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس شخص (محمدؐ) کی ذاتی زندگی میں سچ اور جھوٹ کے حوالے سے تمہاری کیا رائے ہے؟ ابوسفیان نے جواب دیا کہ محمدؑ ایک سچ بولنے والا بندہ ہے۔ چنانچہ یہ بھی ایک بہت بڑی تاریخی شہادت ہے کہ آپؐ کے سب سے دشمن نے بھی آپؐ کے سچا اور کھرا آدمی ہونے کا اعتراف کیا۔حضورؐ کی ذاتی زندگی تو سچائی ہی سے عبارت تھی، صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر پورے معاشرے سے شہادت مانگی کہ میں نے تمہارے اندر چالیس سال گزارے ہیں میرے شب و روز تم نے دیکھے ہیں میرا بچپن، جوانی، اٹھنا بیٹھنا اور میرے معاملات سب کچھ تم لوگوں نے دیکھا ہے، تم لوگوں کی میرے بارے میں کیا رائے ہے؟ ”ھل وجدتمونی صادقاً او کاذباً“ کہ مجھے تم لوگوں نے سچا پایا یا جھوٹا؟ سب نے بیک وقت آواز کہا ”ما وجدنا فیک الا صدقًا“ کہ اے محمدؐ تمہاری زندگی میں ہم نے کبھی سچائی کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں آپؐ کی سنت پر اور آپؐ کے اُسوۃحسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
385