234

سیاسی جماعتیں‘ مخلص کارکنوں سے بے وفائی/ آصف محمود شاہ

سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا راز اس جماعت کے کارکن ہوتے ہیں ان کارکنوں کا جماعت میں ایک مقام ہوتا ہے یہی کارکن کسی بھی سیاسی جماعت کا کل اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کی محنت سے کوئی بھی سیاسی جماعت عروج کا دور دیکھتی ہے۔ وطن عزیز میں

صورتحال اس سے بہت مختلف ہے ان کارکنوں پر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مثلاً جب الیکشن ہو تو ان ورکروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے لیکن کامیابی کے جب یہی کارکن انہیں ملنے کے لیے چلا جائے تو جواب ہوتا ہے صاحب میٹنگ میں ہیں کیا یہی حیثیت ہے۔ این اے52 اور پی پی 5 کی مختلف سیاسی جماعتوں کے سیاسی ورکروں کا کردار ہر دور میں مختلف رہا ہے۔ ایک دور تھا جب پیپلز پارٹی کا اس حلقہ میں طوطی بولتا تھا اور پیپلز پارٹی کے ورکروں کا ایک مقام تھا اس کے لیڈر اپنے پارٹی ورکروں کو ایک مقام دیتے تھے وہ پارٹی پرانی پیپلز پارٹی تھی لیکن اس کے بعد پارٹی ورکرز کو وہ مقام نہ ملا جس کے وہ قابل تھے اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ اپنی40 سالہ رفاقت چھوڑ کر لوگوں نے دوسری پارٹیوں کی جانب رخ کرلیا اور الیکشن میں جو حال پیپلز پارٹی کا ہوا وہ اپنی مثال آپ بن گیا۔ اب ایک نظر ن لیگ کی پارٹی ورکروں پر ڈالی جائے تو ان میں دو قسم کے ورکر نظر آتے ہیں ایک وہ ہیں جو پارٹی کے برے دنوں میں اقتدار کے مزے لوٹنے ق لیگ کی گود میں بیٹھے تھے اور ن لیگ کے لیے دن رات گڑھے کھودتے رہے اور پھر آٹھ سال سے زائد عرصہ تک مزے کرتے رہے جب ق لیگ کا دور ختم ہوا تو ایک بار پھر ن کی چھتری تلے آ بیٹھے اور بدقسمتی دیکھئے کہ پارٹی نے بھی ان کو گلے لگا لیا اس میں بھی ن لیگ کی مجبوری تھی کیونکہ ان میں زیادہ تر لوگ پیسے کے بل بوتے پر سیاسی میدان میں آئے تھے۔ اب ان ورکرز پر ایک نظر جنہوں نے برے وقت میں بھی ن لیگ کو نہ چھوڑا اور وہ ق لیگ کے دور میں پارٹی کے لیے ڈٹ گئے اور جیسا بھی وقت آیا انہوں نے مقابلہ کیا اور پارٹی کے لیے ہر کام کیا لیکن ان کو ملا کیا جب بلدیاتی الیکشن ہوئے تو ایک بار پھر چوری والے مجنوں بازی لے گئے اور پارٹی کے لئے خون دینے والے مجنوں منہ دیکھتے رہ گئے اور جہاں تک بس چلتا تھا وہاں تو چلایا گیا لیکن جہاں بے بسی تھی وہاں پر ٹکٹ نہ دئیے گئے اور ان یوسیز کو اوپن چھوڑ دیا گیا اس پر واویلا بھی ہوا لیکن مخلص کارکنوں نے چپ سادھ لی اور پارٹی کے عظیم تر مفاد کے لیے خاموش ہوگئے۔ ن لیگ کی قیادت کے ساتھ ساتھ یہاں سے منتخب چوہدری نثار علی خان بھی کارکنوں کو وہ مقام نہ دے سکے جو ان کو دینا چاہیے تھا ایک مرتبہ الیکشن جیت کر انہوں نے یہ سیٹ کسی اور کے حوالے کر دی اور خود ٹیکسلا کا رخ کرلیا تھا اور شاید چوہدری نثار علی خان کو اس حلقہ کے کارکنوں کا پتہ ہے کہ وہ پوٹھوار کے سپوت ہیں اور وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اسی لیے وہ ان کو ہردفعہ آزماتے ہیں لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ اتنا کچھ برداشت کرنے کے بعد بھی سیاسی کارکن پھر بھی پیچھے نہیں ہٹے کبھی تو جلسے جلوسوں میں ان کو چوہدری نثار علی خان کی انگلیوں کے اشاروں نے بیٹھنے پر مجبور کیا اور کبھی اپنی مرضی کی جگہ پر جلسہ جلوس کیا۔کبھی سیاسی کارکن ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں اور مالا لئے کھڑے رہے لیکن آپ نے ایک نگاہ بھی ان پر نہ ڈالی لیکن اس کے باوجود بھی وفادار کارکنوں نے اس کی بھی کبھی پرواہ نہ کی اب اس کی تازہ مثال کلر سیداں کے انتخابات کو ہی لیجیئے کہ ایک بار پھر وہی کہانی سامنے آگئی، مسلم لیگ کے دیرینہ کارکن شیخ عبدالقدوس نے چیئرمین شپ کے لیے اعلان کیا۔ کچھ دنوں بعد ان کے مدمقابل حاجی محمد اسحاق نے بھی اپنا پینل تشکیل دے دیا جہاں ایک طرف ن لیگ ایک تھی وہاں دوحصوں ٰ میں بٹ گئی۔ عوامی حلقوں میں اس بات کا بھی چرچاہے کہ اس دوسرے گروپ کی تشکیل میں حاجی اسحاق کے بھائی حاجی الیاس کا ہاتھ ہے جو ہنگامی طور پر کراچی سے تشریف لائے اور وہ بڑے بزنس مین ہیں اور ان کا رابطہ میاں نواز شریف سے ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک گروپ وجود میں آگیا اب اس کو کس طرح کا رنگ دیا جائے پھر دونوں دھڑوں نے اپنے اپنے کاغذات واپس لے لیے اور میڈیا پر بیان دئیے جا رہے ہیں کہ ہم ایک ہیں اور پارٹی کے عظیم تر مفاد میں اکٹھے کام کریں گے لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا اور تمام دھڑوں کو ایک میز پر بٹھا کر اس کا فیصلہ کیا جاتا تو یقیناً آنے والے دنوں میں ایک بہتر فیصلہ ہوتا۔ میرا یہاں لکھنا کسی کی طرفداری نہیں بلکہ یہ بات باور کروانی ہے کہ کیا مسلم لیگی قیادت میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے؟ جس جگہ بھی ایسا معاملہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کو اوپن چھوڑ دیا جائے یا کچھ اور مسائل ہیں؟ ایک بات تو طے ہے کہ اگر سیاسی کارکن نہ ہوں تو لیڈر بھی کچھ نہیں اب آپ کو اپنے کارکنوں کی محبت کا جواب دینا ہوگا اور جو بھی سیاسی ورکر جس کی پارٹی خدمات ہیں ان کو وہ مقام دینا پڑے گا جس کا وہ حقدار ہے ،کارکن صرف ایک مسکراہٹ اور شاباش کا بھوکا ہوتا ہے۔ دوسری طرف آپ کے سامنے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا انجام موجود ہے کیونکہ جب آپ پارٹی کے ورکروں کو مقام نہیں دیں گے آپ کی پارٹی کی حالت بھی ان پارٹیوں کے انجام جیسی ہو گی۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں