ہم نے اپنے ایک گذشتہ کالم میں ملک میں رائج سیاسی انتقام کے متعلق تحریر کیا تھا جس میں اسی طرح چک بیلی خان میں سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والے دو اشخاص شبیر خان شیریال اور امجدمسعود شیریال کا ذکر بھی کیا تھاہم نے اس واقعہ میں یہ لکھا تھا کہ ان لوگوں کی گرفتاری کو خفیہ رکھنا اور عین عید کی چھٹیوں سے قبل ان کو گرفتار کرنا تاکہ ان کی عید جیل
کے اندر گذرے اسے سیاسی مقدمہ قرار دینے کے لئے دلیل کے طور پرکافی تھی تفصیل بیان کرنے کے بعد آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ عید بھی گذر جائیگی یہ لوگ جیل سے باہر بھی آجائیں گے لیکن اس کے بعد ایک نہ بجھنے والی آگ شروع ہو سکتی ہے جس سے کافی لوگ متاثر ہو سکتے ہیں ہم نے یہ کالم عیدسے قبل لکھا اور اب عیدالفطر گذرنے کے فوراً پاکستان کی عدالت نے ان دونوں اشخاص کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے ہم نے سیاسی انتقام کی آگ جلانے والوں کو ایک نصیحت بھی کی تھی کہ ایسی نیکی ہر گز کرنے کی کوشش نہ کیا کریں جو بہت ساری برائیوں کو جنم دینے کا باعث بنے اور بہت سارے گھروں کے درمیان نہ صرف نفرت کی دیواریں کھڑی کر دے بلکہ انہیں نفرت کی آگ میں جلا کر رکھ دے میں نے اس مقدمہ اور اس کے معاشرے پر ہونے والے اثرات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا
میں نے دیکھا کہ مقدمہ سے جیل جانے والے شبیر خان شیریال اور امجد مسعود شیریال کے اوپر تو رتی برابر بھی دھاک نہ بیٹھی البتہ جیل اور تھانہ چوکی سے نابلد ان کی اولادوں نے جو اثر لیا اس کا شاید یہ پرانے شرارتی سیاستدان اندازہ بھی نہیں کر سکتے جو زمین پر پنجے مار مار کر یہ کہہ رہ تھے کہ یہ کوئی سیاسی انتقام نہیں انہیں خواہ مخواہ اس معاملے میں لایا جا رہا ہے ساتھ ہی وہ اس معاملہ کی ہوائی بھی اڑا رہے ہیں کہ ان دو اشخاص کی وجہ سے اب کالج مجوزہ جگہ نہیں بن سکے گا بھئی ان لوگوں کے جیل جانے اور کالج کے معاملے کا آپس میں کیا جوڑ بنتا ہے یہ وہی الفاظ ہیں جو ایک سیاسی انتقام کی طرف نشاندہی کرتے ہیں ہم نے اپنے اس کالم میں یہ بھی تحریر کیا تھا کہ اس تمام کام کا منصوبہ تھری سٹار فیصلہ سازوں کا کیا دھرا ہے
اس میں بھی کافی حد تک حقیتت وقت کے ساتھ کھل کر سامنے بھی آئی ہے اس انتقامی واقعہ سے لا تعلقی کا اظہار کرنے والوں کو میں کھلے لفظوں میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی اسی انتقامی سیاست کے باعث آج ایک نوجوان ایک ڈکیت اور قاتل کے روپ میں ہمارے سامنے ہے جسے انہی انتقامی سیاستدانوں نے چرس کا پرچہ کٹوا کر جیل کی راہ دکھائی تھی اس کے بعد وہ ایک نامور ڈکیت کے روپ میں سامنے آیا اور یہاں تک کہ قتل تک کی وارداتوں میں ملوث ہو گیا اس نوجوان کی تفصیل کسی اور کالم میں تحریر کر دوں گاآج کالجوں کے نام پر سیاست کرنے والے یہ ان پڑھ سیاستدان جنہوں نے اپنی زندگی میں کالج کا منہ نہیں دیکھا ان سے کالج بنا کر لوگوں کو مثبت تعلیم دینے کی توقع تو نہیں کی جا سکتی البتہ ان کے ایسے اقدامات سے قاتل چور اور ڈکیت پیدا کرنے کی امید ضرور کی جا سکتی ہے
میں ان لوگوں کو اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اگر واقعی علم کی روشنی پھیلانے کے لئے اپنی سیاسی خدمت پیش کرنا چاہتے ہیں تو صرف مساجد میں جا کر سر ٹکرانے کی بجائے نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ کی زندگی سے سبق حاصل کریں جنہوں نے لوگوں کو تعلیم دی طائف کے لوگوں نے آپؐ پر پتھر بھی برسائے مگر آپؐ نے انتقام تو کیا ان کے لئے بد دعا تک نہ آپ تو وہ لوگ ہیں کہ مسجد سے نماز پڑھ کے نکلتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے مخالف کے اوپر سیاسی انتقام کا پرچہ ٹھکوا دیتے ہیں اور سیاسی اداکاری کے اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ آپ کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں یہ الفاظ آپ کے لئے آئینہ ہیں کیونکہ بہت جلد آپ اس عدالت میں پہنچیں گے جہاں آپ نے کائنات کے سب سے بڑے جج کے سامنے جواب دینا ہے کہ آپ دنیا میں حقیقی تعلیمی ادارے بنا کر آئے ہیں یا دنیا میں چور ڈکیت اور قاتل پیدا کئے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے اور آپ کے اندر سیاست برائے خدمت کا جذبہ پیدا کرے (آمین){jcomments on}