181

سیاسی اتحاد‘ گوجرخان کی سیاست میں کیا تبدیلی لائے گا؟

طالب حسین آرائیں
وقت نے سیاست میں بہت سے دشمنوں کو دوست بنایا ہے اور بہت سے دوستوں کو دشمن سیاسی اور اجتماعی حکمت عملی کے تقاضے حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔یونان کے فلسفی ہرقلیط اس نے کہا تھا کہ آپ ایک دریا میں دوبار پاؤں نہیں ڈال سکتے یہ بات اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے آپ ایک بار بھی دریا میں پاؤں نہیں ڈال سکتے اس لیے کہ آپ جس لمحے دریا میں پاوں ڈال رہے ہوں گے اس لمحے کے لاکھویں حصے میں دریا یکسر بدل چکا ہوگا۔کچھ ایسا ہی پاکستانی سیاست میں ہورہا ہے۔بظاہر نظریات کا پرچار کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں میں ایک بات کامن ہے کہ ان میں کسی جماعت کا کوئی نظریہ نہیں جس میں ایک نظریے پر یہ سب جماعتیں یکسو ہیں وہ نظریہ ہے سیاسی برادری کے مفادات کا تحفظ سامنے دیکھائی دیتا ہے کہ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والے اقتدار تک رسائی کے لیے ماضی میں ایک دوسرے پر لگائے الزامات کو بھول کر شِیروشکر ہونے میں قطعی دیر نہیں کرتے۔موجودہ دور میں ماسوائے جماعت اسلامی کے ملک کی ہر جماعت کہیں نہ کہیں اقتدار میں موجود ہے اور آئندہ کے لیے بھی اقتدار تک رسائی کے لیے تمام تر نظریات اور ماضی میں لگائے الزامات کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے۔پی ڈی ایم کو شاید الیکشن اتحاد میں بدلنے کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔جس میں پی پی اور اے این پی کی دوبارہ شمولیت بعد ازقیاس نہیں۔اگر ان اطلاعات میں سچائی ہے تو گوجر خان سے پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی کے لیے کنفرم متفقہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔ان کے ساتھ حلقہ پی پی آٹھ اور نو سے ن لیگ کے امیدوار میدان میں اترنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ راجہ پرویز اشرف حلقہ پی پی آٹھ سے 2018 کے الیکشن میں بہت کم مارجن سے دوسرے نمبر پر رہنے والے اپنے بیٹے خرم پرویز کو میدان میں اتارنے کی کوشش کریں اگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت نیچے کی دونوں نشستیں ن لیگ کو دی جاتی ہیں تو ن لیگ مزید مسائل کا شکار ہوگی۔کیونکہ اس وقت قومی کی نشست پر راجہ جاوید اخلاص ن کے مضبوط امیدوار ہیں وہ شاید ہی صوبائی نشست پر الیکشن لڑنے پر آمادہ ہوں۔لیکن فرض کریں کہ وہ پارٹی قیادت اور دوستوں کے مشورے پر صوبائی نشست پر الیکشن لڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو چوہدری ریاض اور چوہدری افتخار وارثی کا ردعمل الیکشن میں بہت اہم کردار ادا کرے گا۔غالب امکان ہے کہ صوبائی نشست کے لیے راجہ جاوید اخلاص کو ٹکٹ ملنے پر چوہدری افتخار وارثی منفی ردعمل کے بجائے مثبت ردعمل دیں گے کیونکہ اس وقت ان دونوں کے تعلقات میں کافی گرمجوشی ہے یہ ہوسکتا ہے کہ چوہدری افتخار وارثی الیکشن کمپین میں اس طرح شامل نہ ہوں جس طرح وہ اپنی کمپین کرتے رہے ہیں یا ٹکٹ ملنے پر کرسکتے ہیں لیکن وہ جلسے جلوسوں میں عدم شرکت کے باوجود الیکشن میں کامیابی کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ چوہدری ریاض اور چوہدری خورشید زمان مبینہ طور پر فیصلے کے خلاف تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مخالفت کی پالیسی اپنا سکتے ہیں

کیونکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اطلاعات پر چوہدری خورشید زمان کا ایک انٹرویو ریکارڈ پر ہے جس میں انہوں نے راجہ پرویز اشرف کو متفقہ امیدوار لانے کی صورت میں پارٹی فیصلے کے خلاف آزاد لڑنے کا اعلان کیا تھا۔اگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت پرویز, اشرف متفقہ امیدوار ہوتے ہیں تو مسلم لیگی ورکز کے پاس چوہدری عظیم اور راجہ پرویز اشرف دو ہی چوائس ہوں گے دونوں کا تعلق جن جماعتوں سے ہے وہ نظریاتی طور پر مسلم لیگی ورکرزکے لیے ناقابل قبول ہیں۔اب دیکھنا ہوگا کہ مسلم لیگی ورکر دونوں جماعتوں میں کس کو کم تر دشمن جان کر ووٹ کرتا ہے۔صوبائی نشست پر اگر راجہ
جاوید اخلاص الیکشن لڑنے پرراضی ہوجاتے ہیں جس کا امکان کم ہے تو ان کا چوہدری جاوید کوثر سے کانٹے کا مقابلہ ہوگا اور ہار جیت کا فیصلہ کم مارجن سے ہوگا راجہ پرویز اشرف کی خواہش ضرور ہوگی کہ پی پی آٹھ سے ان کا بیٹا الیکشن میں ان کے ساتھ ہو ان کی دوسری چوائس چوہدری افتخار وارثی ہوں گے تاہم اس کا فیصلہ تو مسلم لیگ کی قیادت ہی کرئے گی لیکن ایک بات طے ہے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو یانہ ہو راجہ پرویز اشرف کو مسلم لیگ اور پی ٹی آئی پر سبقت حاصل ہے اور ان کی جیت کے غالب امکانات موجود ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں