130

سکول گاڑیوں میں اوورلوڈنگ

جس سماج میں جرائم کو معمولات کی حیثیت حاصل ہو اس سماج کے وجود کا جواز باقی نہیں رہتا۔ہمارے یہاں جس چیز نے سب سے زیادہ فروغ پایا ہے وہ جرم ہے جرم کو اتنی ساز گار فضا کہیں نہیں ملتی جتنی پاکستان میں میسر ہے اور یہ اس لیے ہے کہ یہاں جرم پر سزا کا تصور ہی نہیں ہے مجرم مادر پدر آزاد ہیں۔کوئی روکنے والا نہیں اب یہاں نامعلوم افراد کے گولیاں چلا کر دس بیس افراد کو سرعام مارنے۔کسی بچی کے ریپ یا قتل کی خبر اب خبر نہیں رہی، جرائم پیشہ افراد کسی ایک طبقے یا کسی ایک گروہ سے تعلق نہیں رکھتے سماج کے ہرطبقے اور ہر گروہ کے لوگ اپنی اپنی پسند کے جرائم کا ارتکاب کرنے میں مصروف ہیں اور اُن کی راہ میں کوئی مانع ہے نہ کو مخل۔پاکستانی عوام اندھیرے کے مسافر ہیں سب کچھ ان کے سامنے ہوتا ہے لیکن پھر بھی دیکھنے سے قاصر ہیں ہماراالمیہ یہ ہے کہ پولیس اور ہمارے معاشرتی نظام سے مجرم پیدا ہورہے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں قانون سب کے لیے نہیں ہے۔قوم کے بعض طبقوں نے تو اس وقت وہ طرز عمل اختیار کررکھا ہے جس کو سہنا ان حالات میں ممکن نہیں مجنونانہ اور مجرمانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ہم کب تک ان مجنونانہ اور مجرمانہ افعال کا شکار رہیں گے جس طرف نگاہ اُٹھتی ہے غیرقانونی کاموں کی بھر مار ہے لیکن کوئی بھی ان پر گرفت نہیں چاہتا عام آدمی خود سے ہونے والی زیادتی دیکھ کر بھی چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے ہم خاموشی کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی زندگیاں خطرے میں دیکھ کر بھی ہونٹ سیے ہوئے ہیں۔منشیات فروشی‘جواء کے اڈے‘ جسم فروشی کا کاروبار سب کچھ بااختیار لوگوں کی آشیرباد سے سرعام چل رہا ہے لیکن ہم ہیں کہ زبان کھولنے پر تیار نہیں۔ سب سے گھمبیر مسئلہ جو میری تحریر کا اصل محرک ہے وہ ہیں اسکولز کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سروس فراہم کرنے والی سوزوکی پک اپ اور رکشے۔ گوجر خان بیول اور گردو نواح کے علاقوں میں بچوں کو لانے لے جانے والی سوزوکی پک اپ کے پائدانوں کے علاوہ گاڑی کے دونوں اطراف لٹک کر سفر کرتے کمسن بچے جہاں عوامی بے حسی کا ثبوت ہیں وہیں والدین کی لاپرواہی اور مجرمانہ غفلت کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔کرائے کی مد میں ماہانہ رقم کی ادائیگی کرکے اپنے بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے عمل سے غافل والدین کسی حادثے کی صورت کس طرح اپنی غیرذمہ داری کو ڈیفینڈ کرسکیں گے۔ انہتائی کم عمر بچے پائدانوں اور سوزوکی پک اپ کی دونوں سائڈ پر لٹکے نظر آتے ہیں خدا نہ کرے کہ کسی بچے کا ہاتھ چھوٹ جائے یا پاؤں سلپ ہو جائے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی ٹریفک پولیس کی چشم پوشی پروالدین کے صرف نظر پر یا گاڑی کے ڈرائیور کی ہوس زر پر ہونا تو یہ چاہیے کہ سرعام سرزد ہونے والے اس غیرقانونی اور خطرناک فعل پر قانون حرکت میں آئے لیکن قانون اس مسلےٰ پر مکمل طور پر اپائج نظر آرہا ہے بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا یہ فعل سرے عام سرانجام دیا جاتا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہ کام صرف قصبوں اور چھوٹے شہروں میں ہورہا ہے یہ کام گوجرخان میں بھی ہورہا ہے جہاں ٹریفک پولیس کا باقائدہ دفتر موجود ہے لیکن ٹریفک پولیس اہلکار سارا دن موٹر سائیکل سواروں اور رکشوں کے چالان کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن انہیں بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والے نظر نہیں آتے۔ اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان کو چاہیے کہ اپنے زیر کنڑول علاقوں میں اس سلسلے میں ایک آپریشن لانچ کریں اور اسکول ٹائم پر ایسی گاڑیوں کو ٹارگٹ کریں اور قانون کے مطابق کاروائی کروائیں۔ چالان کے بعد وارننگ بھی جاری کریں اور دوسری بار جرم دہرانے پر گاڑی بونڈ کریں کیونکہ اس کے علاوہ ہوس زر کے مارے یہ لوگ اس فعل سے باز نہیں آئیں گے۔آواز اُٹھائیں بچوں کی زندگیاں محفوظ بنائیں۔یہ ہم سب کے بچے ہیں۔یہ قوم کا اثاثہ ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں