استاد علم کا سرچشمہ ہے کسی بھی معاشرے میں اساتذہ کا کردار انسانیت کی تعمیر و ترقی میں بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اساتذہ ہی نوجوان نسل کو روشن مستقبل کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے رہنمائی کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہیں تاہم حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت کی جانب سے اساتذہ سے امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اساتذہ کے احتجاج کے باعث سرکاری سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں اساتذہ لیو ان کیشمنٹ اور سرکاری سکولوں کی نجکاری کے متوقع حکومتی فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اسی حوالے سے گزشتہ بدھ کے روز بازار سے متصل گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کلرسیداں کے گراؤنڈ میں بھی اساتذہ نے پنجاب حکومت کے خلاف بھرپوراحتجاج کیا تھا اس احتجاج میں تحصیل کلرسیداں کے سرکاری اساتذہ و ملازمین کے علاؤہ سول سوسائٹی اور مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک کی مقامی قیادت نے بھی اس احتجاج میں شرکت کرکے اساتذہ کیساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا
سرکاری سکولوں کے اساتذہ پنجاب حکومت سے لیو ان کیشمنٹ اور گریجویٹی بل میں ترامیم واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں مظاہرین اساتذہ کا کہنا ہے کہ سکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ اس وقت جاری رہے گا جب تک حکومت مذاکراتی عمل کے زریعے مطالبات منظور نہیں کر لیتی یاد رہے گزشتہ ہفتے پنجاب پولیس نے لاہور کے سول سیکرٹریٹ کے باہر احتجاج کرنے والے 100 سے زائد اساتذہ تنظیمی عہدیداروں اور سرکاری ملازمین کو گرفتار کر لیا تھا جس کی بنا پر اساتذہ میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے پنجاب حکومت کا یہ موقف ہے کہ اساتذہ کی پینشن میں کٹوتی اسکولوں کو پروائیوٹائز کرنا اور لیو انکیشمنٹ بند کرنے کا مقصد نگران حکومت کا آئی ایم ایف معاہدوں پرعملدرآمد کروانا ہے پنجاب حکومت کے مختلف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم ایف سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ حکومت اخراجات کو کم کرکے آمدن بڑھائے گی جس میں اساتذہ کے پنشن رول میں تبدیلی اور سرکاری سکولوں کو نجی تحویل میں دینا بھی شامل ہے اس حوالے سے ضلع راولپنڈی میں لگ بھگ ایک ہفتے سے زائد دن گزرنے کے باوجود سرکاری اساتذہ کا احتجاج جاری ہے جس کی وجہ سے صوبہ بھر میں 2 ہزار سے زائد تعلیمی ادارے بند ہیں
راولپنڈی احتجاجی مظاہرے میں ضلع بھر سے ہزاروں خواتین و مرد اساتذہ احتجاج میں شریک ہیں اساتذہ کا یہ مطالبہ ہے کہ لیوانکیشمنٹ بحال کیا جائے پنشن رولز پر عمل درآمد روکا جائے سرکاری سکولوں کی نجکاری روکی اور ریٹائرمنٹ پر گروپ انشورنس دی جائے مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کیا جا رہا ہے تاہم فی الحال پنجاب حکومت کی جانب سے اساتذہ رہنماؤں سے مزاکرات کے حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے جبکہ اس احتجاج کے باعث پنجاب بھرکے قریباً 60 ہزار تعلیمی اداروں میں آٹھ روز سے تدریسی عمل معطل ہے اور پنجاب بھر میں 4 لاکھ 50 ہزار اساتذہ سراپا احتجاج ہیں اساتذہ کے احتجاج کے باعث بچوں کی پڑھائی شدید متاثر ہو رہی ہے دوسری طرف محکمہ تعلیم راولپنڈی کے سی ای او یاسین بلوچ نے والدین سے بچے اسکول بھیجنے کی اپیل کی ہے لاہور میں جاری اساتذہ کے دھرنے پر رات کے پچھلے پہر پنجاب پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے دھرنے میں شریک
متعدد سرکاری ملازمین کو گرفتار کر کے انکے خلاف رپورٹ درج کر لی ہے پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف دو ایف آئی آرز درج ہیں ایک میں 53 اور دوسری میں 49 اساتذہ و سرکاری ملازمین کو نامزد کر دیا گیا ہے
۔پولیس تشدد کی اطلاع ملتے ہی تمام سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں بند کردی گئیں تھیں اساتذہ تنظیموں کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے اپنے حقوق کیلیے ہماری یہ کوشش مطالبات کی منظور تک جاری رہے گی گرفتاریاں ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں ریٹائرڈ ڈپٹی ڈی ای او سیکنڈری رانا ولایتِ علی نے کہاہے کہ حکومت پنجاب نے اُساتذہ و دیگر اساتذہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جسکے ردعمل میں پنجاب بھر کے اساتدہ ملازمین سڑکوں پر نکل آئے ہیں انکا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب، وزیر اعلی اور چیف سیکرٹری پنجاب سے اپیل ہے کہ اساتذہ کیساتھ جلد ازجلد بامعنی مذاکرات کا آغاز کریں اور اساتذہ و ملازمین کے جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں اساتذہ کی گرفتاریوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے
انکا مزید کہنا تھا کہ اساتذہ اور ملازمین لاٹھی اور گولیوں سے نہیں ڈرتے حکومت ہوش کے ناخن لے اور انکے جائز مطالبات تسلیم کرے۔دوسری طرف پنجاب ٹیچرز یونین کے عہدیداران نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پنجاب حکومت نے 10 ہزار تعلیمی اداروں کی نجکاری کی سمری تیار کرلی ہے جس پر وہ عملدرآمد کروانے کا ارادہ رکھتی ہے سرکاری ملازمین اور اساتذہ پنجاب کی نگران حکومت کے غیرقانونی فیصلوں کے خلاف پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم دوسری طرف اساتذہ تنظیموں کو چاہیے کہ وہ احتجاج کیساتھ حکومت کے غیر قانونی اقدامات عدالتوں میں بھی چیلنج کریں۔