انوارالحق/پچھلے 15-20 سالوں میں انفارمیشن میں آ نے والے انقلاب نے جہاں باقی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے وہیں پاکستان کی عوام بھی ان سہولیات سے بہرہ مند ہوے‘چونکہ مغرب ہم سے ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بہت آگے ہے اس لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے ان کی ترجیحات بھی ہم سے مختلف ہیں پاکستان کے معرض وجود میں آ نے کے چند سال بعد ہی ہماری ترقی کے پہیہ کو بریک لگ گئی اور جمہوریت نے ہم سے سوتیلی ماں والا سلوک کر کے عملاً اس محاورہ کو سچ ثابت کر دیا۔ سواے چند ایک تاجروں اور باقی حکمران خاندانوں کے علاوہ عام آ دمی اس سے کو ئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اُ ٹھا سکا۔ آہستہ اہستہ کرپشن نے ہمارے ہر ادارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بلاخر وہ وہ ادارہُ اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو کر ہر پاکستانی سے اپنی تباہی کا بدلہ لے راہاہے۔ہمارا تعلیمی نظام کئی طبقوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اسی طرح طبعی شعبہ‘عدالتی نظام‘حکومتی نظام اپنی آ آخری سانسوں پر ہے۔ ان سب نے ملکر معاشرے کو مزید تقسیم کردیا ہے جس کے گہرے اثرات خاندانی نظام پر بھی پڑے۔ اور وہ بھی اس تقسیم کی تباہ کاری سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا چلا گیااس افراتفری کے ماحول میں بندر کے ہاتھ ادرک کے م صداق نئی ٹیکنالوجی کی صورت میں موبائل فون ہمارے ھاتھ آ گیاجدید فون کے ہوتے ہوے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی وہ اہمیت نہیں رہی جو آج سے دس پندرہ سال پہلے تھی۔ 3جی-پھر 4جی اور اب 5جی ٹیکنالوجی نے بہت سے نئے کاروباری مواقع پیدا کر دیے اور اس مارکیٹ کو دیکھتے ہوے بہت سے انفرادی اور کارباری کمپنیوں نے مو بائل فون کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوے مختلف اپیلیکیشن متعارف کروا دی۔پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مبنی اپیلیکیشن نے پوری دنیا کو ایک دوسرے کو جوڑ دیا فاصلوں کی کوئی اہمیت نہ رہی۔ پوری دنیا میں چند بہت زیادہ استعمال کی جانے والی اپیلیکیشن میں فیس بک‘ ٹویٹر‘ ٹک ٹاک‘انسٹا گرام ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو ایک گلوبل وولیج میں تبدیل کر دیا۔ حدود و قیود کی کو ئی خاص لکیر نہ ہونے کی وجہ سے ہر شخص نے ان پلیٹ فارم کو اپنی سمجھ، ضرورت اور تفریح کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے دنیا پر اس کے اثرات کیا پڑے یہ بحث بہت لمبی ہے صرف پاکستان کے حوالے ہی بات کروں گا۔ پاکستان جو پہلے ہی تقسیم شدہ معاشرے میں بڑا تھا اُس کو سو شل میڈیا پلیٹ فارم نے مز ید تقسیم کر دیا اور معاشرہ اس تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ہوے اکا ئی کی بجاے گروہ میں تبدیل ہو گیا۔سیاسی پارٹیاں جو قوم کی اساس اور امنگوں کی ترجمان ہوتی ہیں انہوں نے ان پلیٹ فارم کو اپنے اقتدار کا زریعہ سمجھ کر ایسی ٹیمیں تشکیل دے ڈالی جو ان کی سیاسی نظریات کی ترویج کرتی اور ساتھ ہی اپنے سیاسی مخالفین کی ماں بہن ایک کرنے میں لمحہ کی دیر نہیں کرتے‘دوسری طرف مذہبی جما عتیں جن کا کام خدا اور اُس کے رسول کے بتاے ہوئے راستے پر رہنمائی کرنا اور انسانیت کو فلاح کے راستے پر ڈالنا تھا انہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوے ریاست کے اندر اپنی ایک ریاست قائم کر لی اور اگر کسی نے راستہ روکنے کی کو شش کی تو کفر اور قتل کے فتوے ریوڑی کی طرح بٹنے لگے نتیجتاً معاشرہ مزید تقسیم اور انتشار کا شکار ہو گیا۔آج حالت یہ ہے کہ فیس بک، ٹویٹر وغیرہ پر ایک دوسرے کو با قاعدہ گالیاں دی جاتی ہیں، جھوٹ کو سچ بنا کے بیچا جاتا ہے۔ بحیثیت معاشرہ ہمارے اندر برداشت تقریباًُ نا پید ہو چکی ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جیسے فرض ہو گیا ہے عدم برداشت سو سائٹی کے اندر اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ معمولی سے معمولی پوسٹ اور ٹویٹ پر گا لیوں اور بد تمیز ی کا وہ طوفان اُٹھتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے ایک دوسرے پر اور بعض اوقات ایک دوست کے خاندان پر بلاوجہ انتہائی غلیظ کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ان رویوں کی وجہ سے معاشرہ مزید انتشار کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ہم مزید اس تباہی کا شکار ہوں گے یا کوئی ایسالایحہ عمل اختیار کیا جاے جو ہمیں مزید انتشار اور تباہی سے محفوظ بنا سکے۔ اگر ہم اس تباہی سے بچنا چاہتے ہیں توہمیں انفرادی اور حکومتی سطح پر مثبت رویہ اپنانا ہو گا۔ انفرادی طور پر ہمیں اپنے رویوں پر غور کرتے ہوے اپنے اندر مثبت سوچ اور برداشت پیدا کرنی ہو گی۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر دفعہ ہم ہی درست ہوں اور ہم ہی حق پر ہوں ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرنا ہو گا۔ سوشل میڈیا کا استعمال بردباری اور برداشت کاور مثبت سوچ کے ساتھ کرنا ہو گا۔ اگر ہم نے اسی سوچ کے ساتھ دوسروں کی پوسٹ۔ ٹویٹ کو جواب دینے کی بجاے نظر انداز کرنا ہو گا۔ دو چار دفعہ ایسا کرنے سے یقیناً ہم اپنے اندر ایک مثبت تبدیلی محسوس کریں گے اور ہر بات کا جواب دینا غیر ضروری سمجھیں گے۔ جب ہمُ ایسا کرنے میں کا میاب ہو گے تو ہمُ معاشرے کے اندر ایک مثبت تبدیلی کا باعث یقیناً بن سکتے ہیں۔ اور یہی وقت کی ضرورت بھی ہے۔
anwarptiuk@gmail.com
367