دور جدید میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں۔ یہ ہماری ذات کا ایسا لازمی جزو بن چکا ہے جس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس کا استعمال ضرورت سے زیادہ عادت بن چکا ہے۔ اس بات پر تو سبھی متفق ہیں کہ اگر سوشل میڈیا اور موبائل کا استعمال مثبت انداز میں کیا جائے تو اس سے بجا طور پر انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں مگر اس پس منظر میں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس کے منفی استعمال سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان پر کیسے قابو پایا جا سکتاہے؟ ایف آئی اے، پولیس یا قانون نافذ کرنیوالے دیگر اداروں کی کارکردگی سے متعلق جب بھی سوال کیا جاتا ہے تو عموماً اس کے سطحی عوامل پر ہی توجہ مرکوز کی جاتی ہے مثلاً اگر کوئی کمسن لڑکا کسی سنگین جرم کا ارتکاب کرے تو اصل وقوعہ اور پولیس کی کارروائی زیر بحث لائی جاتی ہے۔ اس جانب توجہ کیوں نہیں دی جاتی کہ آخر نوجوان نسل کے ایک بڑے حلقے میں ”گینگسٹر کلچر“ کو آئیڈیل کیوں تصور کیا جانے لگا ہے؟ ٹک ٹاک کے استعمال سے متعلق اکثر حکومتی سطح پر پالیسیوں کا اعلان کیا جاتا ہے، اس ایپلیکیشن پر پاکستان میں بھی چند بار پابندی لگائی گئی مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ویب سائٹ کے ذریعے ہونے والی جرم کی تشہیر کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
بڑی گاڑیوں میں کالے شیشوں‘پولیس ہوٹرزاور سائرن لائٹس کا استعمال عام ہو چکا
پولیس کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ راولپنڈی اور اس کے مضافات میں بڑی گاڑیوں میں ”ٹنٹڈ گلاس“ یعنی کالے شیشوں، ”پولیس ہوٹرز“ اور ”سائرن لائٹس“ کا استعمال انتہائی عام ہو چکا ہے، اسی وجہ سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور با اثر افراد کی گاڑیوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، جس کا دل کرتا ہے گاڑیوں کے شیشوں پر کالا سٹیکر لگا کر اور سائرن بجا کر قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کامنفی استعمال روکنے کیلئے ٹھوس قوانین بنائے۔ سائبرعدالتیں قائم کردی گئیں، ڈیجیٹل فرانزک لیبارٹریاں بھی کام کررہی ہیں تاہم وہاں بھی انہی ایپلیکیشنز کی وجہ سے سماجی برائیوں میں اضافہ ہوا ہے، ہمارے یہاں بھی صورتحال کسی طور اطمینان بخش نہیں۔ انٹرنیٹ یاسوشل میڈیا پرہونیوالے جرائم کی تشہیر روکنے کیلئے قانون موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد اصل مسئلہ ہے۔ یہ حلفاً کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں کرائم میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ”ٹک ٹاک“ اور فیس بک و انسٹا گرام پر ”Reels“ کی صورت میں اپلوڈ کی جانے والی وہ شارٹ ویڈیوز ہیں جن میں مجرموں کی تصویروں اور ویڈیوز کیساتھ گانے لگا کر انھیں ہیرو کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ تھانے،بخشی خانوں میں پیشی کیلئے آنے والے اور جیلوں میں موجود مجرموں کی ویڈیوز سے ٹک ٹاک بھری پڑی ہے جن میں بیک گراؤنڈ پر ”بڑھکیں“ یا گینگسٹر میوزک لگا کر انھیں بہت بڑا ”ڈان“ثابت کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پرہونیوالے جرائم کی تشہیر روکنے کیلئے قانون پر عمل درآمدنہیں ہورہا ہے
سوشل میڈیا پرہونیوالے جرائم کی تشہیر روکنے کیلئے قانون پر عمل درآمدنہیں ہورہا ہے لازماً کمسن لڑکے یا سادہ لوح عوام ان ویڈیوز سے متاثر ہوتے ہیں اور اسی قسم کے طرز عمل کو آئیڈیل تصور کرنے لگتے ہیں۔ یاد رہے آج سے کچھ عرصہ پہلے تک ہاتھوں میں ہتھکڑی یا پولیس کی حراست بڑی شرمندگی کی بات سمجھی جاتی تھی مگر کچھ شرپسند عناصر نے اپنی کرتوتوں کو چھپانے کیلئے معاشرے میں ان ویڈیوز کے ذریعے یہ پیغام پہنچانا شروع کر دیا ہے کہ ”مصیبت تاں مرداں تے پیندی رہندی اے“، جو کہ معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ محکمہ پولیس نے پولیس اہلکاروں کے ایسی ویڈیوز بنانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے مگر مجرموں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جو چاہیں اپلوڈ کرتے پھریں۔ ایف آئی اے کو اس ضمن میں توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر پنجاب اور راولپنڈی پولیس کا بھی فرض ہے کہ وہ ان ٹک ٹاک ہینڈلز کو چلانے والوں کے خلاف فی الفور کارروائی کرتے اس طرز عمل کو عام ہونے سے روکیں۔ سوشل میڈیا پر ہوائی فائرنگ کی ویڈیوز اپلوڈ کرنے والوں کیخلاف پولیس کی ”سافٹ ویئر پالیسی“ خاصی کارگر ثابت ہوئی اس یہاں بھی ایسے ہی کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔ ایف آئی اے کی ویب سائٹس پر ویڈیوز رپورٹ کرنے کا آپشن موجود ہے مگر شہری اس سسٹم کی مبینہ پیچیدگی کی بنا پر رپورٹ کرنے سے کتراتے ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ اور آئی جی پنجاب فیصل شاہکار سے درخواست ہے کہ وہ ایک ایسا واٹس ایپ نمبر متعارف کروائیں جس پر شہری بآسانی ایسی چیزیں رپورٹ کر سکیں تاکہ متعلقہ محکمے ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کر سکیں۔