ہماری گلیاں ہمارے راستے ہمارے چوک ہماری بے بسی اور لاچارگی پر نوحہ کناں ہیں بھوک سے کمزور ہمارے جسم دم توڑ رہے ہیں آخر ہم اپنی مردہ وجود کو کس طرح اُٹھائے پھریں ہم اپنی روح کے ابتلا سے کس طرح نجات پا سکتے ہیں ہم نے اپنی تمام عمر بڑی اذیت میں گذاری ہے۔ہمیں کس بے دردی سے ٹرپایا جاتا ہے کسی کے پاس ان بند دروازوں کی چابی ہوگی جن کے کھلنے سے گھٹن اور حبس کا خاتمہ ہوسکے ہاں چابی تو ہے لیکن اُن کے پاس جو ان بند دروازوں کے نگہبان ہیں جو ان دروازوں کو کھولنا نہیں چاہتے۔وہ ہماری گھٹن زدہ اور حبس زدہ زندگی سے خوب واقف ہیں لیکن وہ اس کا مداوہ نہیں چاہتے۔کیوں اس لیے کہ اگر ہم گھٹن اور حبس سے آزاد ہوگئے تو ہمیں اپنے حقوق بھی یاد آئیں گے جب سانس سکون سے آئے گا تو ہم اچھے برے کی تمیز پر بھی توجہ دیں گے۔اچھائی برائی کے فرق کو بھی محسوس کریں گے پھر ہمارے فیصلے بھی آزادانہ ہوں گے سو یہ ان کو کسی طور قبول نہیں میں اندر سے بول رہا ہوں میں تم ہوں میں تم۔سب کا اندر ہوں۔میں چین سے نہیں ہوں۔تم بھی چین سے نہیں ہو ہم سب غریب چین سے نہیں ہیں۔ہوبھی نہیں سکتے کہ اگر ہم چین سے ہوئے تو چین سے رہنے والے بے چین ہوجائیں گے یہ بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو ایک دوسرے کے چین کا خاص خیال رکھتے ہیں بے چین رہنے کو ہم تم جو ہیں۔کیا حکومت کیا ادارے کیا معاشرے کے بڑے پیٹوں والے سب ایک دوسرے کے پشت پناہ ہیں سب اپنی اپنی جگہ ہماری شہ رگوں میں دانت پیوست کیے ہوئے ہیں ہماری داد رسی کے لیے تو رائج قانون بھی ا پاہج ہوتا ہے۔بینکنگ نظام کے علاوہ سودی کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے اور پرائیویٹ طور پر سود کے کاروبار کرنے والوں کے خلاف قانون بھی موجود ہے لیکن وہ قانون ان افراد کے خلاف کاروائی سے یکسر معذور ہے جس کے باعث اس کاروبار سے منسلک افراد خون آشام چمگادڑورں کی طرح اپنے جال میں پھنسنے والے غریب افراد کا اس طرح خون چوستے ہیں کہ اپنی زندگی زندہ لاش کی طرح گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔بیول اور گرد ونواح میں ہی ایسے خون آشام ویمپائرز موجود ہیں جو اس غیر شرعی کاروبار کو بڑے دھڑلے سے سرعام کرتے نظر آتے ہیں ان کے جال میں پھنسنے والا مجبور شخص دس گنا زیادہ ادا کرکے بھی اصل رقم کامقروض رہتا ہے سود خوروں کے ٹولے مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر اپنا سود لینے کے لیے غریب کے گھر کا سامان تک فروخت کروا دیتے ہیں اور انہیں اس پر ملامت بھی نہیں ہوتی دینِ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔سود کو عربی زبان میں ”ربو“کہتے ہیں،جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا، پروان چڑھنا، اور بلندی کی طرف جانا ہے۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ ”کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا“۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص وطمع، خود غرضی، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔
شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں۔” جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے
ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک جائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ دوزخی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔اللہ رب کائنات تمام مجبور انسانوں کو ان درندوں سے محفوظ رکھے اور متعلقہ اداروں کو اس غیر قانونی کاروبار کی بیخ کنی کی توفیق عطا فرمائے۔
