سوانح حیات محمد رفیع ” اک بنجارہ گائے

شاہ جی کے توسط سے بھٹی صاحب سے غائبانہ تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ جناب مصنف ہیں اور موضوع تصنیف ڈگر سے ہٹ کر ہے سو دلچسپی پیدا ہوئی کہ ایسا کیا لکھ بیٹھے ہیں؟

شاہ صاحب کا اصرار بھی تھا سو وقت ملاقات طے ہوا اور چائے خانے پر بھٹی صاحب سے ملاقات ہوئی طاہر یاسین طاہر اور جواد شاہ بھی ہمراہ تھے, وحید ریاست بھٹی سے بلمشافہ تعارف ہوا تو بھٹی صاحب نے بانہوں میں ایک کتاب کی بھاری بھرکم کاپیاں اٹھا رکھی تھیں

جو حال ہی شائع ہوئی تھی اور جلدہی اس کی تقریب رونمائی تھی وحید ریاست بھٹی کی تصانیف میں ممکنہ موضوع نظر آیا تو طے ہوا راقم الحروف کو اس موضوع کو موضوع سخن بناناچاھئیے, سو ایک روز جواد شاہ کے ہمراہ بھٹی صاحب کی رہائشگاہ پرپہنچ کر فلم و قلم بندی کی گئی اخذ شدہ مواد قارئین کی نذر۔1924 میں کوٹلہ سلطان سنگھ پنجاب میں جنم لینے والے بر صغیر کے نامور گلوکار محمد رفیع کی آواز میں وہ جادو تھا

کہ سننے والا اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا۔ 1984 کی بات ہے موہڑہ دھیال کلرسیداں کا ایک طالبعلم اساتذہ اور طلبائکے ساتھ بس میں سوار کلرسیداں سے راولپنڈی کا سفر کررہا تھا کہ انہیں اس وقت کے امریکی صدر جو دورہ پاکستان پر آئے تھے

کو خوش آمدید کہنے جانا تھا اس طالبعلم کا نام وحید ریاست بھٹی تھا دوران سفر بس ڈرائیور نے کیسٹ پلئیر میں ایک کیسٹ ڈال کر چلا دی بس میں نصب سپیکر سر سنگیت بکھیرنے لگے

گائیک کی آواز وحید ریاست بھٹی کی سماعتوں میں شیرینی بکھیرنے لگی یہ پہلا موقع تھا جب ان کی سماعت محمد رفیع کی گلوکاری سے روشناس ہوئی اس آواز نے کانوں میں ایسا رس گھولا کہ دل میں اتر گئی اور پھر طالبعلم سے بینکر بننے والے مداح نے ساری زندگی رفیع کے گیتوں کو سنتے گزاری

تشنگی بڑھی تو کتب خانے چھان مارے مگر گلوکار کی سوانح حیات ملی نہ کوئی اور مفصل کتاب تو 2013 میں سوانح حیات محمد رفیع ” اک بنجارہ گائے” لکھنے کا آغاز کیا نو سو بارہ صفحات پر مشتمل کتاب 2021 میں شائع ہوئی جسے خوب پذیرائی ملی۔

عوامی و ادبی حلقوں میں ” اک بنجارہ گائے” کی ستائش ہوئی تو گلوکار کے فن پاروں کو یکجا کرنے کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا,محمد رفیع کے پرستار سے مصنف کا سفر طے کرنے والے وحید ریاست بھٹی نے محمد رفیع کی فنی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئیاٹھائیس مختلف زبانوں میں محمد رفیع کے گائے گئے

پانج ہزار پانج سو گیتوں کو اپنی کتاب ” گیت گاتا چل ” میں یکجا کر دیا جس کی حال ہی تقریب رونمائی کلرسیداں میں ہوئی اور اس کاوش پر مصنف کواعزازات سے نوازا گیا۔عرصہ دراز سے گیت و ادب کا شغف رکھنے والے محمد ریاست بھٹی کی الماریاں کتابوں سے مزین ہیں

مگر اک بنجارہ گائے اور گیت گاتا چل کے اضافے نے انہیں مصنف کا درجہ عطا کیا تو ادبی حلقے بھی ان کے معترف ہیں گھر والے عزیز و اقارب بھی نازاں نظر آتے ہیں محمد رفیع کو دنیا سے گئے برسوں بیت گئے مگر آج بھی ان کی آواز سننے والوں کیکانوں میں رس گھول رہی ہے اور وحید ریاست بھٹی جیسے پرستار ان کے ایک ایک بول کو کتابوں کو سمو رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں