تاریخی روایات کے مطابق امیر تیمور کی چھٹی پُشت سے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر پیدا ہوا۔ چنگیز خان اورامیر تیمور برلاس دونوں کا جدامجد ایک ہی ہے
جس کا نام تومنہ یا تومنے خان ہے۔ قبیلہ برلاس وسطی ایشیا یا ترکستان میں رہتا تھا اور منگولی زبان نہیں بلکہ ایک ترک زبان چغتائی ترکی بولتا تھا اور اسی وجہ سے سلاطینِ تیموری چغتائی ترک کہلائے
اگر ابوالغازی بہادرخان کی مشہور کتاب شجرہ ترکی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ منگول/مغل خان اور اس کا جڑواں بھائی تاتارخان ترک بن یافث بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے قبیلہ چغتائی منگولوں کے قبیلے قیات بورجگین کی شاخ ہے
جوچنگیز خان کے دوسرے بیٹے چغتائی خان کی اولاد ہے چغتائی قبیلہ کا شجرہ حضرت نوع علیہ السلام کے بیٹے یافث سے ملتا ہے جنکی اولاد ایشیا اور یورپ میں پھیلی یافث کے دس بیٹوں میں سے ایک کا نام ترک تھا جسکی 25 ویں پشت میں تومنہ خان کا ذکر ملتا ہے تومنہ خان کے دو بیٹے تھے قبل خان اور کچولا بہادر،قبل خان کی چوتھی
پشت میں چنگیز خان کا نام آتا ہے جس کے چار بیٹے تھے اکتائی خان تولی خان، چغتائی اور جوجی تھے چیگیز خان کی چوتھی پشت میں کچولی بہادر کا نام آتا ہے
اسکے بیٹے کا نام ایردمچی تھا بہادری کی وجہ سے اسے برلاس کہا جانے لگا ترک زبان میں برلاس کے معنی شیر کے ہیں آج کی تحریر تحصیل کلرسیداں کی
یوسی بشندوٹ اور ساگری میں آباد خاندان مغلیہ سے تعلق رکھنے والے قبیلے کے گرد گھومتی ہے جن کے جدامجد پہلے تاجکستان میں آباد تھے
بعد ازاں بشاور کے علاقے چمکنی اور پھر وہاں سے نقل کر کے تخت پڑی کے مقام پر آباد ہوئے کچھ عرصے کے بعد اس قبیلے کے چند گھرانے تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ کے گاؤں اراضی خاص میں سکونت اختیار کی وہ شروع میں اس مکان میں رہائش پذیر ہوئے
جہاں آج چوہدری محمد اکبر مرحوم کی اولاد آباد ہے کچھ عرصہ قبل ساگری گاؤں مجید آباد کے رہائشی بزرگ شخصیت جناب حاجی محمد نذیر صاحب سے انکی رہائشگاہ پر ملاقات کی اور اس قبیلے کے شجرے کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ ہوا،
حاجی نذیر صاحب کا خاندان یوسی بشندوٹ کے گاؤں اراضی خاص میں آباد تھے بعد ازاں ماسٹر عبدالمجید مرحوم نے 70 کی دہائی میں یوسی بشندوٹ کے گاوں آراضی خاص سے نقل مکانی کر کے ساگری
اور رمیال کے درمیان جگہ لے کر سکونت اختیار کی اور گھر کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کروائی آج اسی مقام کا نام انکی نسبت سے مجید آباد کے نام سے مشہور ہے اس خاندان کا مذہب کیساتھ بڑا گہرا لگاؤ تھا انکی رنگت سفید اور خوش شکل ہیں صوم و صلوٰۃ کے بڑے پابند ہیں
خاندان سے مختلف ادوار میں قاضی کے عہدے پر بھی فائز رہے عبدالمجید مرحوم پانچ بھائی تھے۔عبدالعزیز مرحوم عبد الرفیق مرحوم عبدالرشید مرحوم عبدالرزاق مرحوم حاجی نذیر محمد یوسف اور محمد یونس یہ تینوں بھائی ہیں
جبکہ انکے ولد نیاز احمد تھا،بانی گاؤں مجید آباد ماسٹر عبدالمجید مرحوم کے بیٹے منصور چغتائی، بھانجے اور داماد حاجی نذیر احمد چغتائی صاحب نے راقم سے خصوصی ملاقات کے دوران بتایا
کہ بانی مجیدآباد ماسٹر عبدالمجید مرحوم کو کسی بزرگ نے بشارت دی تھی کہ آپ کے نام پر اسی جگہ ایک شہر آباد ہوگا آج اللہ کے فضل و کرم سے مجید آباد کے مقام پر اب ایک تجارتی مرکز بن ہوچکا ہے
اور یہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء دستیاب ہیں،ساگری مجید آباد میں آباد اس قبیلے کے افراد اپنا شجرہ نسب ظہیر الدین بابر سے جوڑتے ہیں،ظہیر الدین بابر کے چار بیٹے تھے
جن کے نام مرزا ہندال،عسکری،کامران اور نصیرالدین ہمایوں تھے عسکری کے دو بیٹے تھے علیگ بیگ اور مرزا ادلی شاہ بیگ آگے علیگ بیگ کے بھی دو فرزند تھے داد بیگ اور مرزا علیم خان یہ جہلم میں رہائش پذیر ہوئے
داد بیگ کے تین بیٹے تھے جن کے نام دارن بیگ کرکند بیگ اور بلند بیگ تھے ان تینوں کی اولادیں اسوقت ساگری مجید آباد اور اراضی گوڑہ و صابر آباد میں رہائش پذیر ہیں
کرکند بیگ کے ایک بیٹے کا نام پیر درگاہی تھا جنکی 9 پشت نیچے شجرہ مرزا قائم دین سے جا ملتا ہے جن کے چار بیٹے تھے مرزا عبدلمجید مرزا عبدالعزیز مرزا محمد رفیق مرزا عبدالعزیز مرزا عبدالرزاق تھے
مرزا عبدلمجید کے بیٹوں میں ظہور احمد اور منصور احمد شامل ہیں جو اسوقت مجید آباد کے رہائشی ہیں جبکہ مرزا عبدالعزیز کی کے بیٹوں میں محمد جہانگیر،محمد جمیل،محمد طارق محمد شاہ اور قمر زمان ہیں جو اسوقت اراضی گوڑہ اور ڈھوک صابر آباد یوسی بشندوٹ میں رہائش پذیر ہیں
جبکہ مرزا عبدالرزاق کے بیٹے کا نام ثوبان رزاق ہے جو مجید آباد ساگری کے رہائشی ہیں تاہم ساگری مجید آباد اور یوسی بشندوٹ کی حدود میں رہائش پذیر مغل اپنا شجرہ نسب ظہیر الدین بابر کے بیٹے عسکری سے جوڑتے ہیں
دستیاب شجرہ کے مطابق بانی مجید آباد ماسٹر عبدلمجید کا شجرہ کہیں پشت اوپر جا کر ظہیر الدین بابر سے جا ملتا ہے اس تحریر کا لب لباب یہی ہے کہ موجودہ ساگری مجید آباد کے رہائشی اپنا سلسلہ نسب خاندان مغلیہ کے چشم وچراغ ظہیر الدین بابر سے منسلک کرتے ہیں
جو 26 دسمبر 1530 میں وفات پا گئے تھے اور وہ افغانستان کے شہر کابل میں مدفون ہیں ظہیر الدین محمد بابر1443 عیسوی میں پیدا ہوا ماں پیار سے بابر(شیر) کہتی تھی۔ اس کاباپ عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کا حاکم تھا۔ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا۔
اس طرح اس کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون تھا۔ بارہ برس کا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا۔ چچا اور ماموں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہا۔
کبھی تخت پر قابض ہوتا اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتا۔ بالآخر 1504ء میں بلخ اور کابل کا حاکم بن گیا۔ یہاں سے اس نے ہندوستان کی طرف پیش قدمی کی 1525ء تک
پنجاب پر پورا اقتدار جمانے کے بعد 21 اپریل 1526ء کو پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی کے تخت پر قبضہ کر لیا۔ سب سے پہلے اندرونی بغاوت کو کچلا پھر گوالیار حصار میوات بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔
اس کی حکومت کابل سے بنگال تک اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی۔ 26 دسمبر 1530ء کو آگرہ میں انتقال کیا اور حسب وصیت کابل میں دفن ہوااس کے پڑپوتے جہانگیر نے اس کی قبر پر ایک شاندار عمارت بنوائی جو بابر باغ کے نام سے مشہور ہے۔