اسلام میں نماز کوبنیادی حیثیت حاصل ہے اورقرآن مجید میں بھی نماز کی بار بار تاکید کی گئی ہے لیکن قرآن مجید میں نماز کے حکم کیساتھ ہی زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم بھی دیاگیاہے اس لئے اسلام میں نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دومعنوں میں مستعمل ہے اس کا ایک معنی پاکیزگی‘ طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے اور دوسرا معنی نشوونما اور ترقی کا ہے۔زکوٰۃ کے اول الذکر معنی کی وضاحت قرآن مجیدمیں بھی موجود ہے لہذا دنیوی و اخروی کامیابی کے لئے طہارت و تزکیہ نفس کا جو تصور پیش کیاگیا ہے اسے مدِنظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راہِ خدا میں خرچ کیے جانیوالے اس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کے عیبوں سے پاک کرتاہے اور جس طرح نفس کوپاک کیا جاتا ہے جس طرح طرح کھیتی باڑی کو فالتو جڑی بوٹیوں سے پاک صاف کیاجاتاہے اسی طرح مال کو بھی زکوٰۃ دیکر پاک کیاجاتاہے زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے،بڑھنے اورپھلنے پھولنے کا ہے زکوٰۃ کامال خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ مال خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے،زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں:1۔مسلمان ہونا زکوٰۃ مسلمان پر فرض ہے،کافر اور مرتد پر نہیں۔2۔بالغ ہونا‘زکوٰۃ بالغ مسلمان پر فرض ہے، نابالغ زکوٰۃ کی فرضیت کے حکم سے مستثنیٰ ہے۔3۔عاقل ہونا،زکوٰۃ عاقل مسلمان پر فرض ہے، دیوانے پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔4۔ آزاد ہونا،زکوٰۃ آزاد و خود مختار پر فرض ہے، غلام پر نہیں۔5۔ مالک نصاب ہونا،شریعت کے مقرر کردہ نصاب سے کم مال کے مالک پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔6۔ مال کا صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہونا،مال صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہو تو تب ہی اس پر زکوٰۃ فرض ہے7۔ صاحبِ نصاب کا قرض سے فارغ ہونا،مثلاً کسی کے پاس مقررہ نصاب کے برابر مال تو ہے مگر وہ اتنے مال کا مقروض بھی ہے تو اس کا مال قرض سے فارغ نہیں ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔8۔نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا،حاجتِ اصلیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو زندگی بسر کرنے میں بعض بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے بلحاظ موسم کپڑے اور دیگر گھریلو اشیائے ضرورت جیسے برتن‘ وغیرہ اگرچہ یہ سب سامان زکوٰۃ کے مقررہ نصاب سے زائد مالیت کا ہی ہو مگر اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب مال و سامان حاجتِ اصلیہ میں آتا ہے۔9۔ مالِ نامی ہونا‘یعنی مال بڑھنے والا ہو خواہ حقیقتاً بڑھنے والا مال ہو جیسے مال تجارت اور چرانیوالیجانور یا حکماً بڑھنے والا مال ہو جیسے سونا چاندی یہ ایسا مال ہے جس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے بدلے دیگر اشیاء خریدی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا سونا چاندی جس حال میں بھی ہو خواہ زیورات اور برتنوں کی شکل میں ہو یا زمین میں دفن ہو ہر حال میں یہ مالِ نامی یعنی بڑھنے والا مال ہے اور ان پر زکوٰۃ واجب ہے10۔ مالِ نصاب کی مدت،نصاب کا مال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ ایک سال تک وہ نصاب مِلک میں باقی رہے تو سال پورا ہونے کے بعد اس پرزکوٰۃ نکالی جائے گی اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا اس سے زیادہ ہو۔۲ چاندی ساڑھے باون تولہ یا اس سے زیادہ ہو۔۳روپیہ، پیسہ اور مالِ تجارت، جبکہ اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔یاپھرکسی کے پاس تھوڑا سا سونا ہے،کچھ چاندی ہے،کچھ نقد روپے ہیں،کچھ مالِ تجارت ہے، اور ان کی مجموعی مالیت مذکورہ نصاب کو پہنچ جائے تو ایسے شخص پربھی زکوٰۃ فرض ہے الغرض سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت میں سے دو چیزوں کی مالیت جب چاندی کے نصاب کے برابر ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض ہیان چیزوں کے علاوہ چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰۃ فرض ہے، بھیڑ بکری، گائے، بھینس اور اُونٹ کے الگ الگ نصاب ہیں، عشری زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ فرض ہے، جس کو“عشر”کہا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کس مال میں کتنی مقدار واجب الادا ہے؟ کس مال میں کتنے نصاب پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ یہ بات محض عقل و قیاس سے معلوم نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لئے ہمیں آنحضرتﷺ کے ارشادات کی طرف رُجوع کرناچاہیے جس کے پاس نقد روپیہ پیسہ ہو یا مالِ تجارت ہو تو یہ ظاہر ہے کہ اس کے لئے سونے چاندی میں سے کسی ایک کے نصاب کو معیار بنانا ہوگا، رہا یہ کہ چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے یا سونے کے نصاب کو؟ اس کے لئے فقہائے اُمت نے،جو درحقیقت حکمائے اُمت ہیں، یہ فیصلہ دیا ہے کہ ان دونوں میں سے جس کے ساتھ بھی نصاب پورا ہوجائے اسی کو معیار بنایا جائے گا، مثلاً: چاندی کی قیمت سے نصاب پورا ہوجاتا ہے، مگر سونے سے نصاب پورا نہیں ہوتا تو چاندی کی قیمت سے حساب لگایاجائیگا، اور اس کی دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ زکوٰۃ فقراء کے نفع کیلئے ہے، اور اس میں فقراء کا نفع زیادہ ہے،جو آدمی ایک بار نصاب کا مالک ہوجائے تو جب اس نصاب پر ایک سال گزرے گا تو سال کے دوران حاصل ہونے والے کل سرمائے پر زکوٰۃ واجب ہوگی، ہر رقم پر الگ الگ سال گزرنا شرط نہیں، اس لئے رمضان المبارک میں آپ پر کل رقم کی زکوٰۃ واجب ہوگی نقد اور مالِ تجارت کے لئے چاندی کا نصاب معیار ہے ساڑھے سات تولے سونے سے کم پر نقدی ملاکر زکوٰۃ واجب ھیاسلئے زکوٰۃ کوبوجھ ناسمجھیں بلکہ اپنے رب کاحکم سمجھ کر ادا کیجئے اور اس بات پر رب العالمین کاشکر اداء کیجیئے کہ اس نے آپ کو زکوٰۃ دینے والا بنایا لینے والا نہیں اور اس پر بھی شکر ادا کیجئے کہ اللہ نے آپ کو دینے والا بنایا مانگنے والا نہیں اگر آپ کو اللہ نے صاحب حیثیت،مال و دولت جیسی نعمت عطاء کی ہے تواپنی اس خوشی میں غریب،مفلس،تنگدست اور محتاج لوگوں کو ضرور شامل کیجئے۔
190