مسلمان کیلئے زکوٰۃ کی فرضیت کہ بعدان باتوں کاجانناا ور مسائل سے آگاہی حاصل کرنابھی نہایت ضروری واہم ہے کہ زکوٰۃ لینے کہ اصل حقدار کون لوگ ہیں تاکہ زکوٰۃ صحیح معنوں میں اداء پونے کہ ساتھ ساتھ اصل حقدار تک پہنچ سکے جب مسلمان کہ اوپر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ زکوٰۃ کیسے دیں، کس کو دیں اور کیوں دیں یاد رکھیں زکوٰۃ کے مصارف سات ہیں (1)فقیر (2) مسکین (3)عامل (4)رقاب (5)غارم (6)فی سبیل اللہ (7) ابن السبیل۔فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے،مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔عامل وہ شخص ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکوٰۃ اورعشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔غارم سے مراد مَدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔
فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا،لیکن علماء کرام نے لکھاہے کہ جہاں بھی فی سبیل اللہ کالفظ آئے اس سے مراد جہاد فی القتال ہے اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو۔2-سگے بھائی بھی اگر صاحبِ نصاب نہیں ہیں تو ان کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، (بشرطیکہ سید/ہاشمی نہ ہوں)۔3- قریبی رشتہ داروں میں ماموں، خالہ، پھوپھی،چاچااگرصاحبِ نصاب نہیں ہیں تو ان کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے،اگرانکے پاس اتنا مال نہیں جس کی قیمت سونا،چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے،اسی طرح ضرورت اصلیہ سے زائد اتنا سامان بھی نہیں ہے جس کی مجموعی قیمت،سونا چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے تو ایسی صورت میں ان کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے،(بشرطیکہ وہ سید/ہاشمی نہ ہوں)واضح رہے کہ اپنے اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع (اولاد، اور ان کی نسل یعنی پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو اور اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے ان کے علاؤہ دیگر عزیز و اقارب ودیگر مسلمانوں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے (بشرطیکہ مستحقِ زکوٰۃ ہوں)، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے اس لیے کہ اس میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی بھی ہے، اسی طرح بہو اور داماد کو بھی زکوٰۃ دینا جائز ہے ملحوظ رہے کہ زکوٰۃ اس شخص کو دی جاسکتی ہے جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب کے برابر رقم نہ ہو، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکات لینا جائز ہے، اور اس کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی،اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یااس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوتو اس کو زکوٰۃ دینا اور اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے جس طرح زکوٰۃ ادا کرنے کی بہت بڑی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے اسکی تاکید کی گئی ہے اسکے بیشمار فوائد و فضائل،ثمرات و برکات
بیان کئے گئے ہیں اسی طرح اس کی عدم ادائیگی کرنے کی بھی بہت سخت وعید بیان کی گئی ہے اسلام انسانیت خاص کرکہ غریب لوگوں کہ حقوق و ضروریات کابہت خیال رکھنے کادرس دیتاہے اور صاحب حیثیت لوگوں کو حکم دیتا ہے وہ اگر آپ کو اللہ نے مال و دولت جیسی نعمت عطاء کی ہے تو اس نعمت میں غریب لوگوں کو شامل کریں تاکہ اللہ آپ سے راضی ہوُآپکے مال میں برکت عطا فرمائے،آپکے اوپر اپنی رحمت نازل فرمائے،خوف وغم سے نجات عطاء فرمائے،گناہوں کاکفارہ بناکرنجات عطاء فرمائے،زکوٰۃ ادا کیجئے تاکہ اللہ کاغصہ،غضب و ناراضگی دورہواور سب سے بڑھ کر اللہ اس کی برکت کی وجہ سے اچانک،حادثاتی اور بری موت سے آپکی حفاظت فرمائے زکوٰۃ کا ادا ناکرنا کبیرہ گناہ میں شامل ہے جبکہ اسکاانکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے اسکی تاکید کہ لئے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اور جولوگ سونا چاندی کو جمع کر کہ رکھتے ہیں اور اسکو اللہ کہ راستہ میں خرچ نہیں کرتے انکو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیں جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایاجائیگاپھر اس سے ان لوگوں کی پیشانی اور انکے پہلو اور انکی پیٹھ کو داغا جائے گااور کھاجائیگا یہ وہ خزانہ ہے جوتم نے اپنے لئے جمع کئے رکھا اب چکھو اسکا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھتے تھے حدیث شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا کوئی سونا چاندی رکھنے والا شخص ایسا نہیں جو اسکا حق(یعنی زکوٰۃ) نہ دیتاہو مگراسکاحال یہ ہوگاکہ جب قیامت کادن ہوگا اس شخص کو زکوٰۃ نادینے کی وجہ سے اس شخص کو سونے وغیرہ کی چوڑی چوڑی تختیاں پہنائی جائیں گی پھر آن تختیوں کو جہنم کی آگ میں تپایاجائیگاپھر اس شخص کی پیشانی اور پشت کو داغاجائیگاجب یہ تختیاں ٹھنڈی ہوں گی توانکو دوبارہ گرم کیاجائے گا یہ کام اس دن ہوگا جب ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال کہ برابرہوگی اگر آپ کو زکوٰۃ اداء کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتو آپ دینی مدارس میں بآسانی جمع کروا سکتے ہیں دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ان کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کرکے باقی رکھنا دین اسلام کی بقاکاذریعہ ہے، مدارس کے غریب طلبہ کو زکاۃ دینے میں شریعتِ مطہرہ کی ترویج واشاعت میں تعاون ہے لہذا مدارس کے غریب،یتیم،مستحقِ طلبہ کو زکوٰۃ دینا نہ صرف جائزہے بلکہ مستحسن اور دوہرے اجر کا باعث ہے باقی مدارس کے نمائندے مدرسہ کے طلبہ کے وکیل ہوتے ہیں، اور زکوٰۃ کی رقم مستحق طلبہ تک پہنچانے میں امین بھی ہوتے ہیں،ان کی ذمہ داری ہوتی ہے لہذا مدرسہ میں جو رقم زکوۃ کی مد میں جمع کرائی جاتی ہے اس سے زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے
165