69

زندہ مردے

کہنے کو ایک لفظ‘بولنے کو پانچ حرف مگر ہر شخص کے لیے ایک مختلف نظریہ ایک مختلف تجربہ زندگی ہے پیدا ئش سے لیکر اپنی مادی موت تک وقت گزارنے کو زندگی بولایا جاتا ہے زندگی تو محض اس جذبے کا نام ہی کہ جو انسان کو جینے پر آمادہ کرتا ہے اور نہ جینے کے لیے بھی یہی اکساتا ہے زندگی گزارنی تو ہر کسی کو ہے ہر حال میں کاٹنی ہے اس سے کوئی فرار نہیں کوئی اسے اپنے لیے جیتا ہے تو کوئی اپنے عزیزوں کی لیے‘کوئی خود کے مطابق۔زندگی سے کوئی فرار نہیں مگر ایسا بھی لازم نہی کے ہر کوئی اسے مکّمل جیے بہت سے لوگ اپنی زندگی کا بہت ہی کم حصّہ جی کر خود کو اپنے ہی اندر کہیں دفن کر لیتے ہیں کوئی حسرتوں کے بوجھ تلے تو کوئی مجبوریوں سی دل بھر جانے پر,کوئی ماشرے سے تنگ آکر تو کئی خود سی بیزار ہوکر ہم روزانہ کئی ایسے لوگوں سے ملتے کے وو بظاھر تو جی رہے ہوتے ہیں مگر زندگی نام کی کوئی چیز انکے قریب سے بھی نہیں گزری ہوتی ایسے لوگ صرف اپنی ذمّہ داریوں کی خاطر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں کوئی اپنی اولاد کی خاطر اور کافی سارے اپنے والدین کا سہارا بنتے ہیں اور جنہیں ان ذمداریوں سے بھاگنا ہوتا ہے انھیں یہ سماج کسی نہ کسی نشے کی لت لگا لگوا دیتا ہے میرا گزشتہ چند سالوں کا تجزیہ مجھے اس بات پر امادہ کرنے میں کامیاب ہوا کے اکیسویں صدی نے سب سے زیادہ زندہ مردے پیدا کیے ہیں تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھا جائے تو شائد ہی اس قدر بے دل اور بے زار نسل آج سے پہلے فلک نے نہیں دیکھی جسکی کی ایک وجہ ضمیروں کا مردہ ہونا اور دلوں میں سے جاتی ہوئی نرمی ہے.جبکہ دوسری ثقافتوں کی تقلید اور روایت و اقدار سے دوری بھی اس ضمن میں ایک بہت بڑی وجہ ہے مگر سوال یہ ہے کے کیا دن گزارنے کے لیے فقط زندگی ضروری ہے کیا صرف زندہ رہنا زندگی کو کافی ہے
اسکا جواب جون صاحب نے خوب دیا:
بے دلی!کیا یوں ہی دن گزر جاینگے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جاینگے…!

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں