388

زندگی کی طوالت اور مقصد حیات

پروفیسر محمد حسین/عام طور پر یہ چیز ثابت شدہ ہے کہ زندگی کی طوالت کا ایک راز حفظان صحت کے اصولوں میں ہے۔جو قومیں اور لوگ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں ان کی عمریں نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ عمروں کی طوالت کا دارمدار ماحول اور علاقہ پر ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ زندگی کی طوالت کا راز زندگی گزارنے کے مقصد میں بھی ہوتا ہے جیسے بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔و ہ لوگ وقت سے پہلے نہیں مرتے جن کے سامنے اپنی منزل ہو اور وہ اس منزل کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوں۔اللہ پاک اکثرانہیں اپنی منزل تک پہنچنے کی مہلت دیتا ہے اور جب ان کی زندگی کا مقصد پورا ہوجاتا ہے تو ان کو اپنے پاس بلا لیتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لمبی زندگی کے لیے دیگر چیزوں کے علاوہ ضروری ہے کہ آدمی ایک پر مقصد زندگی گزارے عموماً مقصد کی تکمیل موت کا پیغام بھی ہوتا ہے اور مقصد پورا ہونے کے بعدلوگ جلدی انتقال کر جاتے ہیں۔بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جب ان کا مقصد پورا ہوگیا تو اس کے بعد وہ اس دنیا سے کوچ کر گئے مثلاً قائداعظم محمد علی جناح باوجودایک کمزور صحت کے آدمی تھے پاکستان کے حصول تک وہ سخت محنت کرتے رہے اور تندرست رہے‘اور جب پاکستان قائم ہو گیا تو ایک سال بعد رحلت فرما گئے۔خود رسول پاکؐ کی زندگی سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جب آیت ’لکم دینکم‘نازل ہوئی تو مسلمان خوشیاں منا رہے تھے کہ ان کا دین مکمل ہو گیا‘لیکن ایک مزاج شناس رسول رو رہا تھا یہ حضرت ابو بکر صدیق ؓتھے جب آپ سے رونے کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ میرا یہ رونا جدائی کے ڈر سے ہے۔جب دین مکمل ہو گیا ہے تو پھر حضور پاکؐ کی زندگی کا مقصد پورا ہو گیا ہے جس کے بعد آپؐ کا مزید دنیا میں رہنا بے سود ہے۔چنانچہ اس آیت کے نزول کے چند ماہ بعد نبی پاکؐ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔مقصد اور زندگی کی طوالت کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے ان لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ ضروری ہے۔جن کی زندگی کا مشن اپنے مقصد کا حصول تھا‘ایسے لوگ نہ صرف بڑی عمر پاتے ہیں بلکہ آخری دم تک مستعد بھی رہتے ہیں۔ ایسے لوگ مقصد کی تکمیل میں ایسے لگ جاتے ہیں کہ موت بھی ان کا سامنا کرنے سے ڈرتی ہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ وہ لوگ جو گورئمنٹ ملازمت ہیں جب ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو ان میں سے اکثر پانچ دس سال کے اندر ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو کاروباری ہیں وہ ریٹائرڈ نہیں ہوتے وہ نسبتاً لمبی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔اس کی یہی وجہ ہے کہاایک ریٹائرڈ آدمی پہلے کی دھن کھو دیتا ہے اس کی زندگی بیکار ہو جاتی ہے اور وہ بھی زندگی کے لئے بیکار ہو جاتا ہے اس لئے جلد ہی اس کو موت آ جاتی ہے۔مغرب کے لوگوں کی عمریں بڑھنے میں یقینا یہ بھی ایک عنصر ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندگی سے ریٹائر ڈ نہیں ہونے دیتے اور اکثر ایک با مقصد زندگی گزارتے ہیں‘اس طرح وہ آخری دم تک کسی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ ہماری اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ زندہ رہنے کے لئے کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے۔مقصد زندگی کو طوالت بخشتا ہے۔لہذااگر زندہ رہنے کی خواہش ہے تو زندگی کو با مقصد رکھو اوراس مقصد یا منزل کے حصول کے لئے متواتر دل و جان سے کام کرتے جاؤ۔ پھر پتہ چلے گا کہ کیسے موت پیچھے ہٹتی جاتی ہے اور اللہ پاک کیسے مہلت دیتا جاتا ہے البتہ کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ موت کا وقت مقرر نہیں۔آدمی اپنی غلط کاریوں اور خواہشات کی وجہ سے اس مقرر شدہ وقت سے پہلے خود اپنی قبر کھودنا شروع کر دیتا ہے اگر کسی آدمی کی زندگی کو متاثر کرنے والے تمام عوامل کا کسی طرح احاطہ ہو سکے تو اس کی عمر کے بارے میں کسی حد تک حساب لگانا ممکن ہو سکتا ہے۔اس لیے اگر آنے والے وقتوں میں ایسے عوامل کے تجزیہ سے پتہ چل سکے کہ کسی آدمی کی بقیہ عمر کیا ہے تو چونکہ انسان کی ایک ایک حرکت اللہ پاک کے علم میں ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ کون کب مرنے والا ہے اور چونکہ وہی سب قوانین کا مالک اور خالق ہے اس لئے موت خواہ وقت سے پہلے ہو یا طبعی اس کے حکم سے وارد ہوتی ہے اور وہ جو چاہے کرتا ہے ارشاد خداوندی ہے(کہ کوئی نقس نہیں مر سکتا بغیر حکم اللہ کے) سب کا وقت مقرر ہو چکا ہے۔مزید ارشاد فرمایا کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تم کو پورا بدلہ ملے گا دن قیامت کے جو آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہوا وہ اپنی مراد کو پا گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکہ کا مال ہے۔موت حیاتیاتی خلیات کی تخریب کا وقت ہے خلیات کی یہی موت انسان کی زندگی کا خاتمہ ہے اور روح کے انتقال کا وقت بھی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حیاتیاتی خلیات کا عمل بھی وہی اللہ پاک کنٹرول کرتا ہے جس کے حکم کے تحت ہم وجود میں آئے یہی وجہ ہے کہ ناامید اور لاعلاج مریض بھی بعض اوقات معجزانہ طور پر بچ جاتے ہیں۔موت کے وقت کی تکلیف کسی پر بھی آسان نہیں ہے۔اول القرم پیغمبر بھی اس سے نہیں بچے۔حدیث پاک ہے کہ وفات کے وقت اللہ کے پیارے نبیؐ فرما رہے تھے کہ اے اللہ محمدؐپر موت آسان کردے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس سے پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ موت کی سختی صرف گنہگاروں پر آتی ہے لیکن رسول پاکؐ کی موت کو دیکھ کر اب پتہ چلا کہ جان نکلنے کی تکلیف بھی انسان کے درجات کو بلند کرنے کا ایک ذریعہ ہے اس کی وجہ سے مومن کے بہت سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔اس لئے و ہ جن کی موت آسان ہوتی ہے کوئی قابل رشک بات نہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں