انسان کے اندردوطرح کی بیماریاں ہوتی ہیں ایک جسمانی جبکہ دوسری روحانی جسمانی بیماری جیسے بخار،نزلہ زکام،کینسر،یامعذوری وغیرہ اسکاعلاج توڈاکٹرز،ہسپتال،اور حکماء کے پاس ہے جبکہ دوسری بیماریاں جنکوروحانی بیماریاں بھی کہاجاتاہے جنکا تعلق انسان کہ اندرچھپے اعمال پرہوتاہے جس سے انسان کہ اعمال تک ضائع ہوجاتے ہیں اور وہ بے خبررہتاہے نیکیاں اور اچھائیاں کرنے کہ باوجود خسار ے میں رہتاہے جیساکہ اللہ کہ احکامات کی خلاف ورزی کرنا،کفر،شرک وبدعات میں مبتلاء،رھنا،یاپھربغض وحسد کینہ،غرور وتکبر،غصہ،فتنہ و فساد،عیاری و مکاری،سود،رشوت، غیبت و چغل خوری،سودجیسی بیماریوں میں مبتلاء ہونا،بعض تو،بہتان وغیرہ میں مبتلاء ہوتے ہیں ہمارے معاشرے میں کبھی کبھارایسابھی ہوتاہے کہ کسی سے دشمنی،حسد،کینہ،یابدلے کی آگ میں جلنے والے اپنے انجام سے بے خبرہوکرکسی پربھی تہمت،بہتان لگاکراپنے دل کی حسرت کوناکام سکون سے بدلنے کی ناجائزکوشش کرتے ہیں اور وہ اس برائی میں اس قدرآگے نکل جاتے ہیں کہ وہ اپنی عزت وآبرو کی پرواہ کئے بغیردوسرے کی عزت ونفس سے کھیل جاتے ہیں جبکہ مخالف کی ساری زندگی،داو پرلگ جاتی ہے وہ مخالف معاشرہ میں اپنا مقام کھودیتاہے،جس کے بدلے میں وہ بہتان لگانیوالا اس بھیانک نتائج سے بے خبر دنیاوآخرت کی تباہی کاسامان تیارکررہاہوتاہے لیکن اپنے انجام سے بے خبرکیونکہ اسلام نے اس بارے میں بہت تاکیدکرکے اس طرح کی حرکات کرنے سے ڈرایاہے ساتھ ہی ساتھ سزابھی متعین کردی ہے چنانچہ سورہ النور میں ارشاد باری تعالیٰ ہے!اورجو لوگ پرہیز گار عورتوں پر بدکاری کا بہتان باندھیں پھر وہ چار گواہ پیش نہ کریں توانکو 80 کوڑوں کی سزالگاو،اور کبھی انکی گواہی کو قبول نہ کرو بہت ہی بدکار لوگ ہیں (ایسے تہمت لگانے والے)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایاکیا تم جانتے ہوکہ غیبت کیاہے توصحابہ نے کہااللہ اور اس کارسول خوب جاننے والے ہیں توآپ ﷺنے ارشادفرمایااپنے بھائی کا اس طرح ذکرکرناجسے وہ پسند نہ کرے عرض کیاگیاکہ اگرمیرے بھائی میں وہ بات واقعی موجودہوجومیں کہتاہوں؟توآپﷺنے ارشادفرمایاجو کچھ تم کہتے ہو اگر اس میں موجود ہے توتم نے اسکی غیبت کی اگر اس میں وہ موجود نہیں توتم نے اس پربہتان لگایاہے ایک اورحدیث میں ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایاجب مجھے معراج کرائی گئی میراگزرایک ایسی قوم کے پاس ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے وہ(ان سے) اپنے چہروں اورسینوں کونوچ رہے تھے تومیں نے پوچھااے جبریل یہ کون لوگ ہیں؟انھوں نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں (غیبت کرتے ہیں)اور انکی عزتوں کو پامال کرتے ہیں
پہلی حدیث میں جناب رسول اکرمﷺغیبت اور بہتان دونوں کے مفہوم کو واضح فرمادیااور یہ بھی واضح ہواکہ غیبت اور بہتان دونوں زبان ہی کی آفتوں میں سے ہیں افسوس ہے کہ آج کل ہم مسلمانوں نے اپنی محافل و مجالس،اٹھک بیٹھک،زیب و زینت میں غیبت وبہتان کو لازمی حصہ بنالیاہے اورہم زبان سے ایسی باتیں بلاخوف وخطر پھیلارہے ہیں جنکا نتیجہ،انجام بہت ہی براہے اور ہم انجان بنے ہیں کہ یہی زبان ہماری پکڑ کاسبب بن جائیگی ایک حدیث شریف میں آتاہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایاکہ مسلمان وہ ہے جس
کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے،عام طور پر زیادہ تکلیف کاسبب زبان و ہاتھ ہی بنتے ہیں ہم مسلمانوں کی کوئی مجلس کوئی میٹنگ غیبت کرنے یاتہمت باندھنے سے خالی نہیں۔ اس گناہ یعنی غیبت وتہمت میں اضافہ ہوتاجارھاہے،ان میں تہمت ایسی چیزہے جس کے خطرناک نتائج سامنے آتے رہتے ہیں غلط فہمی میں گھر اجڑجاتے ھیں،خاندانوں میں نفرتوں کی دیوارکھڑی کردی جاتی ہے اور بات قتل و غارتگری تک پہنچ جاتی ہے اور اس گناہ پربجائے شرمندگی محسوس کرنے کہ،بجائے معافی مانگنے کہ،توبہ استغفار کرنے کہ،مخالف کو تباہ کرنی کی خوشی منائی جاتی ہے جو بظاہر وقتی طور پرانسان خوش ہوجائے لیکن وہ اس بات سے غافل ہے کہ وہ ایسی آگ سے کھیل رہاہے جوجہنم کاانگارہ بن کراسکا مقدر ٹھہرے گی جس سے چھٹکارا ممکن نہیں تہمت کہ بارے میں ایک قصہ کتابوں میں درج ہے جسے پڑھ کرانسان سوچنے پرمجبورہوجاتاہے کہ یہ کس قدر سنگین گناہ ہے جسکاہمیں اندازہ نہیں چنانچہ قصہ نقل کیاگیاہے کہ مدینہ کی ایک عورت نے مردہ عورت کوغسل دیتے وقت اسکی ران پر ہاتھ رکھتے ہی یہ الفاظ نکالے کہ اس عورت کے فلاں مرد کیساتھ ناجائز تعلقات تھے یہ بات کہنی تھی کہ اللہ تعالی کی پکڑ میں وہ آگئی جب اس کا ہاتھ جدا ناہوا اور نا کوئی حل نکلا تو امام مالک رح سے فیصلہ کروایا گیا توامام مالک نے عورت سے سوال کیاکہ کیا تمہارے پاس اس الزام کہ گواہ ہیں عورت نے جواب دیا کہ نہیں پھرامام مالک نے پوچھاکیااس عورت نے اپنی زندگی میں تم سے اسکاتذکرہ کیا؟جواب آیانہیں امام مالک نے حکم دیاکہ اس عورت نے چونکہ میت پر تہمت لگائی ہے لہذا اس کوحدمقررہ کے مطابق 80 کوڑے لگائے جائیں حکم کی تعمیل ہوئی اور 80 کوڑے لگتے ہی اس عورت کا ہاتھ میت سے الگ ہوگیا.آج ہمیں بھی سوچنا چاہیے کسی سے بدظن،بدگمان ہونے سے بہتر ہے اس کے سامنے اپنے خیالات کااظہار کردیاجائے تاکہ دل میں نفرت،حسد وغیرہ کی آگ ناجلنے پائے بلکہ ہمیں اسکا جواب مل جائے اورہم ان گناہوں سے بچ جائیں،تہمت لگانے کی بجائے ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں ہم کیاہیں کیاکررہے ہیں اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ باوجود اللہ سب کچھ جاننے ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال کرہم سے درگزر بھی کررہاہے اورہمارے عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے ایک مصری عالم کا کہناتھاکہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیاسوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھاجو ایک کپڑے سے ڈھانپاہواتھامیں نے اس سے پوچھا تھال میں کیاچیز ہے تو وہ بولی اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی پس اس کہ جواب نے مجھے شرمندہ کر ڈالا ہم میں سے ہرکسی کے دو،رخ ہوتے ہیں جسکو ہم خود اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت میں ہماری پردہ پوشی فرمائے ورنہ جتنے ہم گناہ کرتے ہیں اگر ہمیں ایک دوسرے کا پتہ چل جائے تو ہم ایک دوسرے کو دفن کرنا بھی چھوڑ دیں جتنے گناہ ہم کرتے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ کریم رب ان پر رحم،فضل وکرم کامعاملہ فرماتے ہوئے ہمارے عیبوں پر پردہ فرماتا ہے۔
کوشش کریں کہ کسی کا عیب اگر معلوم بھی ہو تو بھی بات آگے ناکریں کہیں آپ کی وجہ سے اسے شرمندگی ہوئی تو کل قیامت کے دن اللہ پوچھ لے گا کہ جب میں اپنے بندے کی پردہ پوشی کرتا ہوں تو تم نے کیوں پردہ فاش کیا؟اسکاجواب ہم نہیں دے سکیں گے جس کے بدلہ میں سوائے ناکامی رسوائی کہ اور کچھ نہیں۔
