کمشنر راولپنڈی نورالامین مینگل میں راولپنڈی کی خستہ حال سڑکوں کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی کے لوگوں کی آمدورفت کو آسان بنانے اور رابطہ سڑکوں پر ٹریفک کے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے تین اہم سڑکوں کو دو رویہ کرنے کا پلان ہے۔ اس میں چکری روڈ 18 کلومیٹر لمبی سڑک کے لیے 1575 ملین کا تخمیہ لگایا گیا ہے۔ اسی طرح اڈیالہ روڈ سے کچہری چوک تانگہ اسٹینڈ کی22 کلو میٹر لمبی سڑک کے لیے1594 ملین اور روات چک بیلی روڈ 11 کلو میٹر لمبائی کی روڈ کے لئے لیے1533ملین کا تخمیہ لگایا گیا ہے۔کمشنر راولپنڈی نے مزید کہا کہ کرال چوک سے موٹروے چوک تک پشاور روڈ کو مکمل طور پر سگنل فری کر نے کا پلان ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ضلع راولپنڈی کی اربن روڈز کی تعمیر ومرمت بھی اس پلان کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان سڑکوں کے لیے ضروری کاغذی کاروائی مکمل کرکے منظوری کے لیے بھیج دیا گیا اور کوشش ہیکہ جلد منظوری کے بعد انہیں آئندہ سالانہ ترقیاتی پروگرامز میں شامل کرکے جلد از جلد کام شروع کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کے دوران کیا۔ اجلاس میں ایڈیشنل کمشنر کوآرڈی نیشن سیف انور جپہ، ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ نازیہ سدھن و دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ کمشنر راولپنڈی نورالامین مینگل نے مزید کہا آمدورفت کی بہتر سہولیات کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہے۔ جس سے نہ صرف لوگوں کو سفری آسانی حاصل ہوگی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وقت کی بچت اور ٹریفک کے ہجوم کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ ایسے میں نئی سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ موجودہ سڑکوں کی مرمت و بحالی اور ان کی چوڑائی کا کام بھی جاری ہے تاکہ اہلیان علاقہ اور خاص طور پر روزانہ سفر کرنے والوں کے لیے آسانی ہو۔ نور الامین مینگل نے کہا کہ شہر بھر میں رات گیارہ سے صبح چھ بجے کے علاوہ ہیو ی ٹر یفک پر پا بندی عائد کی ہے جس کی وجہ سییہاں کی ابتر صورتحا ل میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم بھی اس میں مزید اقداما ت کی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر کمشنر نے اپنی یادیں تازہ کیں جب وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں بوائے اسکاؤٹ کے طور پر بھرتی ہوئے تھے۔کمشنر کی طرف سے عمارت کو بلند کرنے اور اس کی خستہ حالت کو برقرار رکھنے کے لیے ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ انہوں نے اپنی انتظامی ٹیم سے ایک فوکل پرسن کو تعینات کرنے میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کی جو PGGA کے ساتھ ہم آہنگی میں کام کر سکیں تاکہ تربیت کے ذریعے کردار سازی کو بڑھایا جا سکے اور ہماری نوجوان نسل میں کھوئی ہوئی قدر کو فروغ دیا جا سکے۔
