مشہور مقولہ ہے کہ سیاست خدمت کا نام ہے لیکن وطن عزیز میں اس خدمت کی سیاست کو بلیک میلنگ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا آج بات کی جائے گی روات اورچک بیلی کء جوڑیاں کے ہسپتال کی جو سیاسی چپقلش کی نظر ہوچکے ہیں روات ہسپتال پانچ سال قبل اسکاافتتاح چوہدری نثارعلی خان نے کیا تھا اسکی تعمیر زور شور سے شروع ہوئی بعد میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو صداقت عباسی غلام سرورخان سمیت بہت سے سیاسی کھڑپینچ اسکے افتتاح کے دعوے کرتے نظر آئے لیکن آج تک یہ بلڈنگ افتتاح کی منتظرنظر آتی ہے تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو قمر اسلام راجہ نوید بھٹی سمیت دیگر عہدیدار اس کے لیے متحرک ہوئے لیکن ایک سال کی مخلوط حکومت بھی اسکو نہ چلا سکی اسکا بوجھ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے کندھوں پر ڈال دیا گیا لیکن اس وقت سے تاحال انکے کندھے اسکا بوجھ نہ اٹھا سکے
اسی طرز کا دوسرا ہسپتال چک بیلی خان روڈ چونترہ کا مشترکہ اور واحدہسپتال بھی سیاسی چپلقش کا شکار ہوتا نظرآرہا ہے چک بیلی جوڑیاں ہسپتال کی بنیاد اس وقت تحریک انصاف کے رہنماء اور MNAغلام سرور خان نے رکھی اس ہسپتال کے لیے بہترین کاوشوں کے لیے ملک نعیم آف چک امرال اور چوہدری افضل پڑیال کا نام نہ لینا یقینا زیادتی ہوگی تحریک انصاف کی حکومت تبدیل کیا ہوئی اس ہسپتال کی قسمت بھی روات ہسپتال کی طرح سو گئی چک بیلی اور گرد نواح کے عوام اب یہ بات کہتے نظر آتے ہیں کہ اس ہسپتال کے فنڈز کو مسلم لیگ ن کے مقامی رہنماوں نے رکوادیاہے بہت سے لوگ اس میں قمر اسلام راجہ کانام لیتے نظر آتے ہیں کہ۔اس ہسپتال کی تعمیر کو مکمل ہوجانا چاہیے تھا قمر اسلام راجہ چیئرمین آئسکو رہے اور بجلی کے پول اور یاریں لگواتے رہے ہیں انکا دعوی ہے کہ مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت یعنی بڑے میاں اور چھوٹے میاں بشمول مریم نواز انکی ہر بات مانتے ہیں لیکن کیا وجہ ہیکہ وہ اپنے حلقہ انتخاب کے لیے فنڈز جاری نہ کرواسکے یا جاری فنڈز کو کیوں روک لیا گیا روات کہ طرح جوڑیاں ہسپتال کی بلڈنگ تو بن گئی مگر اس سے آگے تعمیراتی کام گزشتہ کئی ماہ سے تعطل کا شکارنظر آتا ہے
روات کے عوام کو پنڈی جانے کے لیے چند منٹوں کی مسافت درکار ہے لیکن چک بیلہ چونترہ کے عوام دوہرے عذاب کا شکار ہیں وہ ہمیشہ سے ہی سیاسی کھرپینچوں کے زیر تسلط رہے انہوں نے کبھی اپنے حق کے لیے آواز بلند نہ۔کی چک بیلی چونترہ میں کوئی بڑا ہسپتال سرے سے ہی موجود نہیں جوڑیاں ہسپتال واحد ہسپتال تھا جو غریب عوام کے لیے امیدوں کا مرکز تھاعوام علاقہ کو ایمرجنسی صورت میں میلوں کا سفر طے کر کے راولپنڈی کی طرف جانا پڑتا ہے اور اس ساری پریکٹس میں کئی مریضوں کی قیمتی جانیں بھی جا چکی ہیں اسی عوامی ایشو کومد نظر رکھتے ہوئے غلام سرور خان نیہسپتال کی بنیاد رکھی تھی یہ پورے علاقے میں اپنی نوعیت کا واحد ہسپتال ہوتا جہاں ہر قسم کی ایمرجنسی سہولیات فراہم کی جانی تھیجوڑیاں ہسپتال300 بیڈز پر مشتمل اپنی نوعیت کا واحد بڑا منصوبہ تھاہسپتال کے ساتھ میڈیکل ٹریننگ سنٹر بھی زیر تعمیرہے اسکے ساتھ ساتھ سٹاف کے لیے رہائشی کواعٹر بھی تعمیر ہوچکے ہیں جبکہ ایمر جنسی کے لیے ریسکیو1122کو بھی مکمل کیا جارہا ہیپروجیکٹ کا آغاز دس کروڑ سے کیا گیاوقت کے ساتھ ساتھ ہسپتال کی لاگت 60کروڑ تک جا پہنچالیکن سیاسی یا انتظامی ستم ظریفی کہ 10کروڑ کا فنڈ،جس سے جوڑیاں ہسپتال کو مکمل ہوکر فعال ہونا تھا اسیریلیزہوتے ہی رکوادیا گیا اب سوال یہ ہے کے جب یہ ہسپتال غریب عوام کی فلاح کے لیے بنایاجارہے ہیں تو وہ کونسی انہونی طاقتیں ہیں
جنہوں نے روات اور جوڑیاں ہسپتال کے فنڈز کو رکوادیا ہے اورغریب عوام کے اس منصوبے کو مکمل نہیں ہونیدیا جارہا ہیتو اس میں سیاسی فوائد کو داخل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی سب سے بڑاسوال راولپنڈی انتظامیہ کے نام کہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنرزنے بیس دن میں روات منڈی چالو کردی جبکہ رنگ روڈ پر دن رات کام جاری ہے کیاانہیں روات اور جوڑیاں ہسپتال کا ادھوار پن نظر نہیں آرہا ہے انکی اس حوالہ سےپراسرارخاموشی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے اس ملک میں کوئی ایسا قانون آج تک نہیں بنا جو ایسے بااثر لوگوں کو پوچھ سکے الیکشن کا ڈھول بج چکا ہے اب حلقہ کے عوام کا فرض ہے کہ وہ اس حلقہ سے الیکشن لڑنے کے نام پر موجودتین درجن سے زائد امیدواروں کو پوچھیں کہ ان ہسپتال کی راہ میں کون رکاوٹ بنا ہے اور اسے ووٹ کی طاقت سے عبرت ناک شکست سے دوچار کریں جاتے حاتے ملک ذوالقدر عباس اور احتشام چوہدری کہ دوستوں کی کاوشوں کو بھی سلام جو مسلسل اس ایشوکو سوشل میڈیا پر اٹھا رہے ہیں کاش کے حلقہ کے عوام جاگ جائیں اور ان سیاسی شعبدہ بازوں اور انتظامی افسران کے گریبانوں میں ہاتھ ڈاؐلیں جنہوں نے اس عوامی منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکائے