ہا شہیدو! خون چانئے گل پھلن۔۔۔ نغمہ چانئے عظمت ک بلبل گیوان
(اے میرے شہیدو! تمہارے خون سے پھول کھلیں گے اور تمہاری عظمت کے گیت بلبلیں گائیں گی)
کشمیر کے مسلمانوں کی ابتلاء کا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب انگریزوں نے کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ اونے پونے داموں فروخت کردیا۔ ڈوگروں کے دور میں مسلمانوں کی نہ کوئی سیاسی زندگی تھی اور نہ ہی کوئی سماجی زندگی۔ کشمیری مسلمان اپنی غلامی کے بدترین دور سے گزر رہے تھے۔ ڈوگرہ حکمران نے اب مسلمانوں کی مذہبی زندگی میں بھی کھلم کھلا دخل اندازی شروع کر دی تھی۔ 29 اپریل 1931ء کو عیدالاضحی کے دن جموں کی ایک مسجد میں امام مسجد اپنے خطبے میں حضرت موسی ؑ اور فرعون کا ذکر کر رہے تھے
اور ڈیوٹی پر مامور ڈوگرہ تھانیدار کو یہ بات مہاراجہ سے منسوب محسوس ہوئی اور زبردستی اس خطبے کو بندکرادیا اور امام مسجد کو گرفتار کرکے نمازیوں کو مسجد سے نکال دیا۔ مسلمان اپنے مذہب میں مداخلت پر سیخ پاتو تھے ہی اور اس کے ساتھ ہی جموں جیل میں ایک ہندو سپاہی کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی نے انہیں اور بھی زیادہ غم و الم میں مبتلا کر دیا۔ اب مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ خاموش تماشائی نہیں رہیں گے۔ ان واقعات پر مسلمان انتہائی اشتعال میں تھے اور ریاست کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آگ سی لگی ہوئی تھی۔ مسلمان ہر روز ہزاروں کی تعداد میں سری نگر میں جمع ہوتے جہاں میرواعظ مولانا یوسف شاہ، چوہدری غلام عباس اورگورنمنٹ ہائی سکول جموں کے سائنس ٹیچرشیخ عبداللہ ان سے خطاب کرتے اور ان کے جذبات کو ابھارتے اور تقریریں سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ انہی دنوں ایک انگریز جو کشمیر میں اپنی چھٹیاں گزارنے آیا ہوا تھا، کا پٹھان ملازم عبدالقدیر خان بھی ہر روز ان کی تقاریر سنتااور لوگوں کو گھروں کو جاتا ہوا دیکھتا رہتا۔
ایک دن جب ہجوم منتشر ہو رہا تھاتو عبدالقدیر خان لوگوں کو للکارتا ہوا سٹیج پر کھڑاہو گیا اور کہا کہ مسلمانوں قرادادوں اور تقریروں کا وقت گزر گیاہے اب عمل کا وقت ہے۔ اس نے مہاراجہ کے راج محل کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کیا کہ اٹھو! اس راج محل کی اینٹ سے اینٹ بجادواور اسے جلا کر بھسم کردو۔ کشمیری مسلمانوں نے اس طرح کی للکارپہلی بار سنی تھی اور ان میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا ہوگیا، جس کے قدم جہاں تھے وہیں رک گئے اور اس آواز کے سحر میں کھو گیا۔ ڈوگرہ فوجیوں نے لوگوں کوبغاوت پر اکسانے کے جرم پر عبدالقدیر خان کو گرفتار کر لیا اور سیشن جج پنڈت لال کشن کچلو کی عدالت میں اس پر بغاوت کا مقدمہ شروع ہو گیا۔
کشمیری مسلمان اپنے مسیحا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دور دراز سے امڈآئے۔ ڈوگروں نے نقصِ امن کے خطرے کے پیشِ نظر مقدمے کی کاروائی جیل کے اندر منتقل کردی۔ 13 جولائی 1931ء کواس کیس کی سماعت کے دن سری نگر جیل کے باہر سات ہزار سے زیادہ لوگ جمع تھے اور اپنے ہیرو کو سامنے لانے کا مطالبہ کر رہے تھے کیونکہ یہ افواہ گرم تھی کہ عبدالقدیر خان کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اسی دوران ظہر کی آذان کا وقت ہو گیااور ایک جوشیلے نوجوان نے جیل کی دیوار پر چڑھ کر اذان دینی شروع کردی۔ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ نے گولی چلانے کا حکم دے دیااور ایک کے بعد ایک اپنے مذہب پر نثار ہوتے ہوئے مادرِوطن کی آغوش میں جان دیتے رہے۔ جب آذان مکمل ہوئی تو 22 نوجوان جامِ شہادت نوش کرچکے تھے۔13 جولائی 1931ء کی شام پورے کشمیر میں شامِ غریباں برپاتھی۔ اس شام نہ کسی گھر میں چولہا جلا اور نہ ہی کھانا پکا۔ ان شہداء کے اجسادِخاکی جلوس کی صورت میں جامع مسجد سری نگر لائے گئے اور ان کی نمازِجنازہ اداکی گئی اور انہیں خانقائے نقشبند میں تین دن بعد دفن کردیا گیا۔
ایک زخمی نے اپنی آخری ہچکی لینے سے قبل شیخ عبداللہ سے کہا کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا ہے اب آپ کی ذمہ داری ہے۔ شیخ عبداللہ نے بعد میں بھارت کے جھانسے میں آکر اپنی عاقبت خراب کر لی لیکن یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف آج بھی اسی آب وتاب سے رواں دواں ہے اور اپنے مقصد کے حصول تک اسی آن بان سے ان شہداء کے مشن کی تکمیل تک چلتا رہے گا جس کی نشاندہی ان شہداء نے اپنے خون سے کر دی تھی۔ ان ہی شہداء کی یاد میں یوم ِ شہدائے کشمیر ہر سال 13جولائی کو پورے آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کشمیری آباد ہیں منایا جاتا ہے۔ یہ دن کشمیرکی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتاہے۔ 5اگست 2019ء میں بھارتی آئین میں کشمیرکی خصوصی حیثیت کیخاتمیتک اس دن مقبوضہ جموں وکشمیر میں سرکاری تعطیل ہوتی تھی اوران شہداء کے مزارات پرخصوصی تقریب میں انہیں سلامی دی جاتی تھی۔ کشمیری آج بھی اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنے پیدائشی حق، حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں کہ جس کا وعدہ اقوامِ متحدہ نے ان سے کیا تھا لیکن ابھی تک اس کے ایفا کی نوبت نہیں آئی اور نہ ہی کشمیری مسلمانوں کا حوصلہ ماند پڑاہے۔اپنے گذشتہ ادوارکی طرح اس دفعہ بھی جناب نریندر مودی تیسری دفعہ بھارت کے وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے بہت سے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کے ساتھ ساتھ ریاست جموں وکشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کا عندیہ بھی دیا لیکن اب اس کے کیا خدوخال ہوں گے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ جناب نریندر مودی نے اب تک جتنے بھی کشمیر کے دورے کیے ہیں انہیں کشمیریوں کی سوچ اور ان کے رویے سے اندازہ ہوجانا چاہیے تھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں جب تک دل و دماغ ہی پرسکون اور مطمئن نہیں ہوں گے تو اس وقت تک تعمیر و ترقی کی کو ئی اہمیت نہیں ہو گی۔
ان کے لیے یہ اچھا موقع تھا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا جائز قانونی اور پیدائشی حق، حق ِخودارادیت دے کر ایک تومسلمانوں کے حوالے سے اپنے بارے میں قائم تاثر کو ختم کردیتے اوردوسرے بھارت کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کو بھی سچ کر دکھاتے اور اپنے پیشروؤں کے کیے ہوئے وعدوں کو بھی پورا کر دیتے۔ انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اب زیادہ دیر تک کشمیر کو بزور بازو زیر نگیں نہیں رکھ سکتے اور کشمیر یوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور ان کا ناحق بہایا گیا خون ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاکر رہے گا۔ کشمیر آزاد ہو گا اور اس کا الحاق پاکستان سے ہوگا۔۔ انشائاللہ!!!!
؎ آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات سیماب پا ہو جائے گی