اللہ تعالی اتنا رحیم و کریم ہے کہ اس کی رحمت ہمیشہ اس کے غضب پر حاوی رہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے اسی محبت کی وجہ سے ہر روز رات کے آخری پہر اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے اور انسانوں کو صدا دیتا ہے اس ساری کیفیت کو مختلف احادیث میں ذکر کیا گیا ہے ان کو یکجا کر کے پیش کرتا ہوں مفہوم احادیث کچھ یوں ہے ہر رات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو وہ فرماتا ہے کون ہے مجھ سے دعا کرنے والا تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں کون ہے مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کروں کون ہے مجھ سے استغفار کرنے والا تاکہ میں اس کی مغفرت کروں کوئی ہے جو مجھ سے معافی چاہے کہ میں اسے بخش دوں کوئی ہے مانگنے والا کہ جسے میں عطا کروں حتیٰ کہ اِسی طرح صبح ہو جاتی ہے۔یہ کام ہمارا خدا جو واحدہ لا شریک ہے اپنی شان کے مطابق ہر روز کرتا ہے اس سے بڑھ کر اس رحیم و کریم رب نے اپنے پیارے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر ان کی وجہ سے خاص فضل و احسان فرمایا کہ اس امت کو ایک ایسا مہینہ عطا فرما دیا جو سراسر اس کی رحمت برکت بخشش سے مالا مال ہے حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا پتہ ہوتا تو وہ خواہش کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو (بیہقی) یہ اتنا بابرکت مہینہ ہے کہ جس میں ہر ایک فعل کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے حدیث شریف میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس(رمضان) میں قرب الٰہی کی نیت سے کوئی نیکی کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں ایک فرض ادا کرنے کے برابر سمجھا جاتا ہے اور جو شخص اس میں ایک فرض ادا کرتا ہے گویا اس نے باقی مہینوں میں ستر فرائض ادا کیے یہ فضائل و برکات اللہ تعالیٰ کی رحمت کرم بخشش انعام ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کی محبت میں یا اس کے خوف میں اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں وہ دن بھر سخت دھوپ میں گرمی کی تپش و تمازت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے محنت مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ روزہ بھی رکھتے ہیں اور رات کو اس کے حضور فرائض کے علاوہ نوافل میں طویل قیام کرتے ہیں انہیں اس کی محبت میں نہ گرمی کی شدت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی رات کے قیام میں تھکاوٹ لیکن کچھ ہم جیسے بھی ہیں جن کو دن کی تپش روزے سے محروم رکھتی ہے ساتھ ہی کام کا بھانا جیسے گندم کی کٹائی کا موقع ہے کیسے جی روزہ رکھ کر کٹائی کروں اگر روزہ کام سے روکتا تو اللہ تعالیٰ جو علیم و خبیر ہے وہ روزہ رات کا فرض کر دیتا کہ آرام سے کھا کر سو جاؤ اٹھ کر افطار کر لینا امتحان ہمیشہ مشکل لیا جاتا ہے غزوہ بدر بھی تو رمضان المبارک میں ہی ھوا تھا اگر رکھ لیا تو وہ بھی بھوک پیاس کے علاؤہ لا حاصل رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہدایت دے ہمارے سیاست دانوں کو آج کل ملکی حالات کچھ اس نہج پر ہیں ہر کوئی دوسرے کو قصور وار ٹھہرا رہا ہے اورہماری جس بھی جماعت کے ساتھ وابستگی ہے الامان الحفیظ ہم نے تو دوسرے کو غلط ہی ثابت کرنا ہے جھوٹ غیبت بہتان تراشی گالم گلوچ ہمارا اوڑھنا بچھونا بن کر رھ گیا ہے ھر دو فریق جب بھی دوسرے کو مخاطب کرتے ہیں تو گالی دے کر اس غلط اور درست میں ہماری اخلاقیات اس کے کیا کہنے دن رات ہم اسی کام میں مصروف عمل ہیں سحر افطار نماز سب کچھ اس پر قربان خدارا ہوش کے ناخن لیجیے کسی کی
لڑائی میں اپنا آپ تباہ نہ کیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جائے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ یوں ارشاد فرمایا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اس میں شیاطین کو (زنجیروں میں) جکڑ دیا جاتا ہے وہ شخص بڑا ہی بد نصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو (پھر) کب ہو گی دوسری مقام پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس لے آئے تھے جونہی میں نے منبر کی پہلی سیڑھی پر قد م رکھا تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دعا کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آمین کہئے پھر اُنہوں نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اوراللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش نہ کرا سکا میں نے کہا آمین ذرا سوچئے روزہ ہمارے دین کا ایک بنیادی ستون اور شعائر اللہ میں سے ہے ہم نے اس کا کیسے مذاق اڑایا اگر ہم اس کی قدر اس طرح کرتے ہیں تو ہم اپنے اس طرز عمل سے اپنے آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں خدارا سیاستدانوں کے فریب سے نکلیں انہوں نے پہلے ہمارے پیارے ملک کا بیڑا غرق کیا اب وہ مل کر ہماری دینی و اخلاقی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں شعائر اللہ پر عمل اور احترام کے ذریعے اپنی آنے والی نسل کی اچھی تربیت اپنے عمل وکردار سے کریں کیونکہ بچوں پر ابتدائی عمر کا رنگ کم ہی اترتا ہے
132