کہا جاتا ہے کہ لکھاری کو قوت تخلیق اور حق گوئی کے ساتھ اگر دائمی رشتہ جوڑنا ہو تو اس کی اساس محبت‘خلوص اور سچائی پر ہونی چاہیے لکھاری ان تینوں کے بغیر اپنے قلم سے حق گوئی کا رشتہ تادیر قائم نہیں رکھ سکتا کسی بھی موضوع پر قلم اُٹھانے سے پہلے قلمکار کو اپنے دل کی ڈھرکنوں کی طرف دھیان دیتے ہوئے اس کی پکار کو سننا چاہیے۔حکمت ہویا ڈاکٹر اس کے پاس ہر مرض کا علاج ہوتا ہے مگر بعض ایسے موذی مرض لاحق ہوجاتے ہیں جن کا کہیں علاج ممکن نہیں خصوصاً وہ آزار جو روح کی گہرائیوں میں سرایت کرچکے ہوں۔ناجائز کام وکاروبار‘ناجائز منافع خوری بھی وہ آزار ہیں جو بحیثت قوم ہماری روحوں میں گہرائی تک سرایت کرچکے ہیں۔ہمارے قرب وجوار میں پھیلی کہانیوں میں ایک سچی کہانی ہماری مسلمانیت اورہمارے ایمان پر لگے سوالیہ نشان سے متعلق ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ماہ رمضان سب سے زیادہ عبادات پرہیز گاری اور نفس پر کنڑول کا مہینہ قرار پاتا ہے اس ماہ میں شیطان کو قید کر لیا جاتا ہے۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ شیطان کے قید ہونے کے باوجود مسلمانان پاکستان اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لاسکتے کیونکہ شیطان تو ہمارے نفس میں موجود ہے ہم تو اس ماہ کو کمائی کا سیزن قراردے کر پورا ماہ لوٹ مار کرتے نظرآتے ہیں۔ ماہ رمضان سے قبل اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ اب ایک معمول بن چکا ہے اور ایسا حال میں ہی نہیں ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا کیونکہ جہاں حکمران صرف اس لیے برسراقتدار آتے ہوں کہ وہ اپنے اقتدار کو اپنے خاندان اپنے عزیز واقارب اور دوستوں کو نوازنے اور اپنی اناپرستی عیاشی کے لیے استعمال کرسکیں وہاں عوام کی مشکلات اور مسائل پر اُٹھتی آوازیں نگار میں طوطی کی آواز سیزیادہ کچھ نہیں ہوسکتیں۔حسب سابق اس بار بھی ماہ رمضان کی آمد پر پھل‘سبزیاں اور دیگر استمال کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ دیکھنے کو ملا۔جبکہ دوسری جانب پرائس کنڑول کمیٹیاں بدستور غیر فعال ہیں۔اس سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ دوکانداروں کی جانب سے مارکیٹ کمیٹی کی جاری پرائس لسٹ میں تعین کردہ قیمتوں سے کہیں زیادہ نرخ وصول کیے جانے کی شکایات تواتر سے سامنے آرہی ہیں۔بیول اور گرد ونواح میں کہیں بھی ریٹ میں برابری موجود نہیں ہردوکاندار من مرضی کے ریٹ پر مال فروخت کرتا ہے بیول میں پنڈی پوسٹ کے لیے کیے جانے سروے کے مطابق کیلا 150 سے 200 روپے درجن‘خربوز ہ100 روپے‘ تربوز کہیں 80تو کہیں 90‘سیب بھی کہیں 250کہیں 260 روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے مالٹا 250 سے 280 روپے درجن‘ امردو 100 روپے‘اسٹوبری 250روپے کلو جبکہ سبزیوں کی قیمتیں بھی کافی اوپر نظر آئیں صرف ایک دوکان کشمیر فروٹ سبزی پوائٹ ایسی سامنے آئی جس پر ہر چیز ریٹ لسٹ سے بھی دس روپے کم پر مہیا کی جارہی تھی۔یقیناً وہ دوکاندار بھی اپنی سیل کو نقصان سے دوچار نہیں کررہا ہوگا شاید ماہ رمضان کے احترام میں اپنا منافع کم رکھ کر کاروبار کر رہا ہوں۔ہر شخص کو سفردرپیش ہوتا ہے مگر انسانوں کے ساتھ کائنات کی چیزیں بھی سفر در سفر رہتی ہیں بے بہا دولت کی آمد پھر اسکا سفر۔ہرشخص اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔آنکھوں میں خواب سجانے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی مگر ان خوابوں کو تعبیر سے ہمکنار کرنیکی ایک قیمت ضرورادا کرنا پڑتی ہے۔ہم بھی گذشتہ چوہتر سالوں سے اپنے خوابوں کو تعبیر سے ہمکنار کرنے کی کوشش میں حکمرانوں کو ان کے چناو کا خراج ادا کررہے ہیں۔ہر آنے والا جانے والے سے کہیں زیادہ ظالم کہیں زیادہ عوام دشمن اور کہیں زیادہ احساس سے عاری ہوتا ہے۔وطن کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔لیکن یہاں نہ اسلام ہے اور نہ جمہوریت اسلام کو ہم عوام نے تماشہ بنا دیا اور ناجائز کمائی کو بھی اپنا حق مان لیا جبکہ جمہوریت کو ہمارے لیڈران اور اداروں نے کھلونا بنا لیا۔
