زیادہ اور عمیق مطالعہ کے بغیر ،اور انتہائی معرفت والی ہستیوں سے کسب فیض کے بغیر بھی آج تک جو تعلیمات حاصل کی ہیں ان کی روشنی میں جو شخصیت کا خاکہ حضورنبی کریم ؐ کا ہمارے ذہن میں بنتا ہے ۔ اس میں ہر سو رحمت ہی رحمت نظر آتی ہے۔ہر عمل شفقت سے بھرپور دکھتا ہے۔عفو و درگزر ایسا کہ جان کے دشمنوں کو بھی عام معافی میں معاف کردیتے ہیں۔یہاں تک کہ اپنے عزیز از جاں چچاکی شہادت کے بعد ان کے جسد مبارک کا مثلہ کرنیوالوں کو بھی معاف کر تے ہیں۔بچوں سے اتنی شفقت و محبت کہ ایک جنگ کے دوران مسلمانو ں نے مشرکین کے بچوں کو ہلاک کردیا تو اس پر اظہار ناراضگی کیا اور رنجیدہ ہوئے نہ صرف یہ کہ رنجیدہ ہوئے بلکہ اس عمل سے براء ت کا اعلان بھی کیا۔اسی طرح ایک جنگ میں ایک کافرنے ایک صحابی کے سامنے اقرار ایمان کیا لیکن ان صحابی نے یہ احتمال کرتے ہوئے کہ یہ میری تلوار کی زد میں ہونے کیوجہ سے اقرار ایمان کر رہا ہے تو انہوں نے اس کو تہ تیغ کردیا۔جب اس کی خبر رسول خداؐ کو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ چاہئے وہ جان بچانے کی وجہ سے اقرار ایمان کر رہا تھا لیکن اقرار تو کر رہا تھا۔
جب صلح حدیبیہ کا معاہد ہ تحریر ہو رہا تھا تو کفار مکہ کے نمائندہ نے اس بات پر اعتراض کیا کہ آپ کا نام نامی ’’محمدرسول اللہؐ‘‘ سے ہم کو اختلاف ہے لہذا اس کو یوں نہ تحریر کیا جائے تو نبی رحمتؐ نے کمال مہربانی کامظاہر ہ کرتے ہوئے اپنا نام ’’محمدؐبن عبداللہ ‘‘درج کروایا۔اسی صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ ’’ اگر کوئی کافر اسلام قبول کر کے مدینہ طیبہ جائے گا تو وہ شخص کفار کو واپس کردیا جائے گا‘‘یہ شرط زبانی طور پر جب فریقین قبول کرچکے تھے اور تحریری معاہدہ ابھی نہیں ہوا تھا تو ایک شخص جو مسلمان تھا اور کفار مکہ کی قید میں تھا وہ وہاں آپہنچا تو نمائندہ کفار نے اس کی واپسی کا تقاضہ کیا جو کو رسول اللہؐ نے تسلیم کر لیا اور اس نومسلم کو واپس ان ظالمین کے حوالے کردیاحالانکہ وہ نو مسلم دوران قید تشدد کیوجہ سے زخمی تھے لیکن کیونکہ زبانی طور پر شرط واپسی طے پا چکی تھی لہذارسول کریمؐ نے ان کی واپس کردیا۔تاریخ شاہد ہے کہ کچھ مسلمان اس معاہدہ پر خوش نہ تھی لیکن اللہ کی تدبیر کا جب رسول اللہ ؐ نے بتایا اور قرآن اس کو فتح مبین سے تعبیر کیا تو وہ لوگ مطمئن ہوئے۔راقم کا نظریہ یہ ہے کہ حکمت الہی میں یہ بھی شامل ہو گاکہ کہیں معترضین یہ نہ سمجھیں کہ حضرت محمدؐذاتی خواہش پر یہ سب کر رہے ہیں اور ان کا (نعوذباللہ) مطمعہ نظر اقتدا ر ہے نہ کہ فلاح و نجات انسانیت ہے اس لئے اپنے نام کے ساتھ اپنی الہی حیثیت کے استعمال سے روک دیا۔اور حضرت ابوجندل کو اس لئے واپس کردیا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ایک جارح سپہ سالار ہے اور معاہد ہ کوئی پاسداری نہیں کرتا۔
رحمتہ العالمینؐ نے شروعات جنگ،دوران جنگ اور بعد از جنگ (یعنی قیدیوں اور دیگر عوامل) کے متعلق جو ارشادات بطور ہدایات دیئے وہ آج بھی اعلی انسانی اقدار کی نشاندہی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہیں۔جیسے جنگ سے غیر متعلق لوگوں سے اغماض برتنا،معذور،بوڑھے،عورتوں اور بچوں سے درگذر کرنا۔مال مویشی اور فصلات وغیرہ کو نقصان نہ پہچانا شامل ہے۔حضور نبی کریمؐ کی تمام زندگی میں لڑی جانیوالی تمام جنگیں دفاعی جنگوں میں شمار ہوتی ہیں۔فتح مکہ کو عمومی طور پر بغیر خون کی فتح سے تعبیر کیا جاتا ہے تو اگر اس کو باقاعدہ جنگ قرار نہ دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
جیسے رمضان المبارک میں ہر خاص و عام عبادات کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے اسی طرح ماہ ربیع الاول میں بھی مسلمان خاص کر سیرت رسولؐ کو بیان کرتے ہیں اور یہ عہد بھی کرتے ہیں کو وہ اپنی زندگیاں جناب رسول خداؐ کی روش پر چلتے ہوئے بسر کریں گے۔اس برس جب ہم یوم میلادالنبیؐ منا رہے ہیں تو بطور مسلمان ہمارے لئے بہت ہی شرم کا مقام ہے۔کیونکہ تعلیمات قرآن اور سنت نبویؐ کی ایسی ایسی تشریحات کی جا رہی ہیں کہ اللہ امان الحفیظ۔فریضۂ علم کو کفر واستعمار کا ایک حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔قبائلی و علاقائی روایات کو لبادہ اسلام میں پیش کیا جا رہا ہے۔اظہار عقیدت بدعت و شرک اور کلمہ گو کا گلہ کاٹنا عین اسلام بنا ہوا ہے۔فروعی اختلافات کی بنیاد پر محو عبادت مسلمانوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے۔’’خوارج‘‘ کو اسلام کا سچا سپاہی سمجھا جا رہا ہے۔ننگ دین کو عظمت دین کی دستار کا حقدار قرار دیا جا رہا ہے۔امن و سلامتی کے دین کے پیروکار،رحمتہ اللعالمینؐ کے ماننے والے آج دہشت و بربریت کے مترادف سمجھا جارہا ہے۔ہر گزرتے دن کیساتھ جہالت کا اسلام کے نام پر راج بڑھتا جا رہا ہے۔بے جرم انسانوں کے قاتل مسلمانوں کی راہبری کے علمبردار بنے ہوئے ہیں اور نہ صرف تقاضہ اطاعت کررہے ہیں بلکہ اپنی پیروی میں نجات اور مخالفت کو کفر قرار دے رہے ہیں۔اسلام کی عمومی تعلیمات کے بجائے’’حالات مخصوص‘‘کے احکام اور کچھ ضعیف ترین روایات کو بنیاد بنا کر عمومی حالات پر منطبق کیا جا رہا ہے۔ان تشریحات کو تسلیم نہ کرنیوالوں کو ملحد و کافر قرار دیا جا رہا ہے۔اسی کفر و الحاد کی بنیاد پرمخالفت کرنیوالے مسلمان کی جان و مال کو مباح قرار دیا جا چکا ہے۔
آج جب ہم رحمتہ اللعالمینؐ سے اظہار عقیدت و محبت اور تعلیمات رسول ثقلینؐ پر کار بند ہونے کا عہد و پیمان کر رہے ہیں تو پر ہمیں اس عہد کے تقاضوں کو کماحقہْ ادا کرنا ہو گا۔بالخصوص منبر رسولؐ پر بیٹھ کر ہم سے یہ عہد وپیمان لینے والوں یہ زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی محفل سے لیکر عظیم الشان اجتماعات میں وہ اس وقت کے ’’خوارج‘‘ کو بے نقاب کرکے،ان کی تعلیمات کو حقیقی اسلامی تعلیمات سے رد کرکے اپنی شرعی ذمہ داری سے عہدہ براء ہوں اور علمی جہاد کا علم بلند کریں۔اپنے اپنے مورچوں کی حدود سے نکل کر سوچیں کیونکہ جس طرح منبر رسولؐ پر بیٹھنے کی عظمت ومرتبت زیادہ ہے اسی طرح ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔مرتبہ اور دعوہ جتنا بلند ہو گا امتحان اور سوال وجواب بھی اسی کے حساب سے ہوں گے۔
ہمیں آج کے دن یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم اسلام کی آفاقی تعلیمات کو پھیلائیں گے۔ اسوہ حسنہ کو نمونہ عمل بنائیں گے،وہ اسوہ حسنہ جو رحمت ہی رحمت ہے،وہ اسوہ حسنہ جو شفقت ہی شفقت ہے،وہ اسوہ حسنہ جو عفوو درگزر ہے،وہ اسوہ حسنہ جو کرم ہی کرم ہے اور اسی اسوہ حسنہ پر عمل سے یہ منزل ملتی ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں{jcomments on}