راولپنڈی شہر ایک قدیم ترین شہر ہے جہاں پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک سے لوگ آکر آباد ہوتے ہیں جسکی بنیادی وجہ اس شہر کا دارالحکومت کے قریب ترین ہونا ہے یہاں پر لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی باقی شہروں یا علاقوں کی نسبت زیادہ ملتے ہیں سکول کالج ہسپتال سمیت دیگر تمام سہولیات بھی کسی دور دراز علاقے کی نسبت کئی گنا بہتر ہیں آور یہ ایک پرسکون شہر جانا جاتا ہے جس وجہ سے لوگ اس شہر کو اپنا مسکن بناتے ہیں ماضی میں کراچی ،لاہور سمیت پاکستان کے دیگر کئی شہروں میں بدامنی،جرائم کی شرع میں بے حد اضافہ رہا مگر راولپنڈی باقی شہروں کی نسبت قدرے پر امن شہر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہاں پر تعینات سی پی او احسن یونس تھے جنھوں نے کافی حد تک جرائم پر قابو پایا ہوا تھا اور انکے ہوتے لوگ خود کو محفوظ بھی تصور کرتے تھے اور اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو یا کسی کے ساتھ ناجائز ہو تو وہ بلا جھجک انکے پاس جاکر اپنی شکایت کرتا جس کے فوری بعد اس کو اسکا حق دلوا دیا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ عوام انکو بہت پسند کرتی اور سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر انکی خدمات کو سراہا جاتا تھا لیکن انکی اچانک راولپنڈی سے لاہور ٹرانسفر کر دی گئی جس سے یہاں کی عوام نے آئی جی پنجاب سمیت اعلی قیادت سے اپیل بھی کی کہ انکو ٹرانسفر نہ کیا جائے لیکن محکمانہ طور پر آرڈر آچکا تھا اور انکو جانا پڑا انکی ٹرانسفر کے بعد یہاں نئے سی پی او اطہر اسمعیل تعینات ہوئے جنھوں نے اسی عزم کا اظہار کیا جس پر احسن یونس کاربند تھے انھوں نے قبضہ گروپ سمیت منشیات فروشوں کے خلاف اعلان جہاد کرنے کا بولا لیکن انکے آنے کے بعد گذشتہ ایک ماہ سے راولپنڈی میں کرائم کی لہر نے کروٹ لی راولپنڈی شہر ، کینٹ اور دیہی علاقے بھی اس وقت کرائم کی نئی لہر کا شکار ہیں اس کے علاوہ قبضہ مافیا نے بھی دوبارہ سے سر اٹھا لیا ہے آئے روز کی فائرنگ اور قبضہ کی خبریں گردش کر رہی ہیں راولپنڈی شہر خاص طور پر کینٹ اور دیہی علاقہ ڈاکوؤں کی آمجگاہ بنا ہوا ہے دن دیہاڑے راہ چلتی خواتین ،نوجوان لڑکیوں سے اسلحہ کی نوک پر زیورات ،موبائلز ، نقدی چھیننے جیسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں اب ان بڑھتی وارداتوں کی وجہ سے شام کے سائے ڈھلتے ساتھ ہی شہری خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگ گئے ہیں اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں جن میں تھانہ روات ،تھانہ چونترہ شامل ہیں ان میں جرائم کی شرع میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اگر تھانہ چونترہ کی بات کی جائے تو یہ تھانہ راولپنڈی میں سب سے بدنام ترین تھانہ ہے کیونکہ یہاں جرائم کی شرع سب سے زیادہ ہے اسکی حدود میں قائم ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں آئے روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے جو اب مذید بڑھ رہی ہے اور یہ ہاوسنگ سوسائٹی والے مقامی پولیس کی آشیرباد سے مذید باہمت ہو چکے ہیں اور غریب لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں یہاں جرائم کی دوسری بنیادی وجہ ان تھانوں کی حدود بہت بڑی ہے جو کئی کلو میٹرز اور کئی علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے مگر اتنے بڑے علاقوں میں کوئی بھی بڑی چیک پوسٹ یا پولیس پٹرولنگ کا نظام نیں ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کے لیے سونے کی چڑیا سمجھا جاتا ہے یہاں پر ڈاکیت راستہ روک کر کسی بھی گاڑی کو آسانی سے لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ منشیات فروش بھی اس علاقے کو اپنے لیے اور یہاں کے نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے محفوظ تصور کرتے ہیں ان وارداتوں میں کمی کے لیے مناسب گشت کا نظام ہونا چاہیے اس کے علاوہ تھانوں کی تعداد بھی راولپنڈی کی آبادی کے حساب سے بہت کم ہے اس میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیئے پولیس اور انتظامیہ کو اپنی موجودگی اور رٹ دکھانی ہوگی اس سے شہریوں میں نہ صرف پولیس اور انتظامیہ پر اعتماد بڑھے گا بلکہ وہ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھے گے دوسری طرف ہم دیکھیں تو راولپنڈی جسکی آبادی میں غیر معمولی اضافے کے بعد اربن کرائم کی شکل سامنے آتی ہے جس سے نمٹنے کیلئے دنیا بھر کے ایسے شہروں میں پولیس اور انتظامیہ اپنے اقدامات بھی اسی طرح سے ترتیب دیتی ہے جس طرح سے آبادی کی نئی صورت بنتی ہے اگر ہم دیکھیں آج کے راولپنڈی کو تو یہ پرانی آبادیوں والا شہر نیں رہاجس میں شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رہنے والے ایک دوسرے سے باخبر ہوتے تھے اور ایک دوسرے کا پتہ ہوتا تھا کہ کون کس جگہ رہائش پذیر ہے اس کا تعلق کس گھرانے کس گاوں سے ہے آج صورتحال بالکل مختلف ہے ہے آج شہری اپنے ہمسائے میں رہنے والوں سے بھی مکمل طور پر ناواقف ہیں جبکہ معاشرتی ترتیب اور مذہبی اعتبار سے بھی ایک بنیادی عنصر یہ ہے کہ لوگ اپنے ہمسایوں سے پوری طرح واقف اور باخبر ہوں لیکن آج کے حالات میں ہر شہری اپنی چار دیواری تک محدود ہے جس کی وجہ سے وہ شہر کی خرابیوں سے بھی خاصی دلچسپی نیں رکھتا جسکے سبب اب پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں لیکن شہریوں کو بھی ایسے میں اپنے ارد گرد اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خود نظر رکھنی ہوگی تاکہ جرائم پر قابو پایا جاسکے اور جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی ممکن ہوسکے
