168

راولپنڈی ایک ماہ میں 13 ہزار وارداتیں

تحریر جواد اصغر شاد

جرائم کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی یعنی غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور مہنگائی ہیں۔ غربت کی وجہ سے جب انسان بھوک میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنی بھوک مٹانے کیلیے کسی کے حق کو پامال کرتا ہے۔ جب ایک پڑھے لکھے نوجوان کے پاس روزگار نہیں ہوتا تو وہ سڑکوں پر لوگوں کو لوٹنے لگ جاتا ہے۔ جب مہنگائی کی وجہ سے آمدنی و اخراجات میں توازن نہ رہے تو انسان اس توازن کو برقرار رکھنے کیلیے جائز و ناجائز ذرائع آمدن میں فرق کو مٹا دیتا ہے اور جب حق پر ہوتے ہوئے بھی انصاف نہ ملے تو انسان خود انصاف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ جب بھی کسی سوسائٹی میں جرائم کی شرح بڑھتی ہے تو لوگوں میں عدم تحفظ اور بے چینی جیسی کیفیات میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ جرم جانی اور مالی دونوں صورتوں میں نقصان پہنچاتا ہے۔ کوئی بھی جرم چاہے آپ کے ساتھ نہ بھی ہو، تب بھی اس کی وجہ سے ایک خوف اور عدم تحفظ محسوس ہوتا ہے۔ جرم ہے کیا؟ کوئی بھی معاشرہ جب تشکیل پاتا ہے تو اس کے لوگوں کیلیے کچھ قوانین زندگی بنائے جاتے ہیں تاکہ ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھا جاسکے اور جب کوئی ان حقوق کی پامالی کرتا ہے تو اسے جرم گردانا جاتا ہے اور حکومتیں اس کے لیے مجرم کو مختلف سزائیں تفویض کرتی ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ یوں تو ملک بھر میں سیلاب، مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے جرائم کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مگر ضلع راولپنڈی میں محض سو دنوں میں 13000سے زائد وارداتوں نے راولپنڈی پولیس کی کارگردگی کا پول کھول دیا ہے۔ چوری، نقب زنی، لوٹ مار اور راہزنی کی 6749 وارداتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اس علاقے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے اور اگر پولیس و دیگر متعلقہ اداروں نے ٹھوس حکمت عملی بنا کر جرائم پیشہ عناصر کیخلاف موثر کریک ڈاؤن نہ کیا تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اس تحریر میں راولپنڈی پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے تازہ ترین اعداد و شمار اور جرائم میں تشویشناک اضافے کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ یکم جون سے دس ستمبر یعنی 100 دنوں میں 6749واردتیں ہوئیں جن میں چور ی ہونے والی گاڑیوں کی تعدا د 239، موٹر سائیکلوں کی تعداد 2006،3511 موبائل فون اور 71 رکشے شامل ہیں۔ ان سو دنوں کے دوران ہی چور 3516 شہریوں کے موبائل فون بھی لے اڑے جبکہ مردوں اور کم عمر بچوں کے اغوا کے 116 مقدمات درج کیے گئے۔ اس مختصر عرصے میں خواتین اور بچیوں کیساتھ 276 جرائم کے واقعات سامنے آئے۔ اوسطاً روزانہ بیس سے زائد موٹر سائیکل چوری اور چھیننے کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گاڑیوں سے بیٹری چوری و دیگر اس طرح کی چھوٹی وارداتوں کو نہ تو شہری رپورٹ کراتے ہیں نہ ہی تھانے کا عملہ ان واقعات کی رپورٹ درج کرتا ہے۔سماجی حلقوں نے ضلع میں بے لگام ہو رہے جرائم پیشہ عناصر کی دیدہ دلیری کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ سیلاب کے باعث اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور دیگر متاثرہ علاقوں سے مخلتف گروہوں اور گینگز کا راولپنڈی اسلام آباد کا رخ کرنا بھی غالباً ان وارداتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتا ہے۔ رواں سال اب تک راولپنڈی میں قتل کی 200 سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں مگر پولیس کے اعلیٰ حکام کوئی موثر حکمت عملی مرتب کرنے میں ناکام رہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انھیں تھانوں کے ایس ایچ اوز کے تبادلوں سے ہی فرصت نہیں اور یہ آئے روز کی تبدیلی بھی قطعاً کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ ایک ایس ایچ او جب اپنے متعلقہ علاقوں میں جا کر علاقے کی صورتحال جاننے لگتا ہے اور بہتر حکمت عملی وضع کرنے کی پوزیشن میں آتا ہے، اسکا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ کیا علاقے میں امن و امان قائم کرنے کی تمام ذمہ داری محض ایس ایچ اوز پر عائد ہوتی ہے؟ کیا پولیس کے اعلیٰ حکام اس سے مبرّا ہیں؟ عوامی و سماجی حلقے پولیس کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایس ایچ اوز کی تبدیلی کا باقاعدہ میکنیزم بنائیں تاکہ شہر میں جرائم کی بڑھتی وارداتوں کے تدارک کی سنجیدہ کوششیں کی جا سکیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں