تحصیل کہوٹہ تعلیمی شعبے میں بھی پیچھے لاکھوں کی آبادی والی اس تحصیل میں صرف ایک بوائز ڈگری کالج جو اس جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم منتخب نمائندوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے علاقے کے بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم ہیں ہر آنے والے نمائندے نے الیکشن سے قبل اور بعد میں بے شمار اعلانات کیے مگر ان پر عمل نہ ہو سکا مسلم لیگ ن نے بھی یونیورسٹی بنائی نہ ہی اس کالج کو اپگریڈ کیا موجودہ ایم این اے صداقت علی عباسی نے اس علاقے میں یونیورسٹی کا وعدہ کیا تھا مگر وہ انہوں نے مری میں بنا دی جبکہ تحصیل کہوٹہ میں صرف ایک گرلز کالج ہے جو رقبے کے لحاظ سے بھی ناکافی ہے اور سہولیات کے حوالے سے بھی جس کی وجہ سے نارہ، بیور، لیڑی اور دیگر علاقوں کی بچیاں میٹرک کے بعد تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں صداقت عباسی نے نارہ میں گرلز کالج کا وعدہ بھی کیا تھا مگر ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود بھی کچھ نہ ہوا تحصیل کہوٹہ کا واحد بوائز ڈگری کالج جو 1964 میں قائم ہوا اور بعد ازاں کے آرایل کی حدود میں آنے کی وجہ سے اس کو بورڈ آف گورنر کے سپرد کر دیا گیا بورڈ میں منتخب نمائندے اور اور دیگر لوگ بھی شامل تھے جس کی وجہ سے اس پسماندہ علاقے کے بچوں سے فیس بھی لی جاتی تھی اور پھر وسائل کم ہونے کی وجہ سے نہ کالج کو اپگریڈ کیا جا سکا اور نہ ہی اساتذہ کو کوئی تحفظ فراہم ہو سکا حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب کالج میں احتجاج ہوا اور اساتذہ اپنی تنخواہ کے لیے سڑکوں پر آ گئے اس وقت راجہ محمد علی جو اس وقت شاید ایم پی اے تھے انہوں نے پنجاب حکومت سے کروڑوں روپے سالانہ فنڈز منظور کرائے اور پھر اس کالج کا نظام چلتا رہا بوائز کالج میں بچوں کی تعداد 15 سو سے لے کر 2 ہزار تک ہوا کرتی تھی کھیلوں کے مقابلے اور دیگر غیر نصابی سرگرمیاں مذہبی مقابلے ہوا کرتے تھے چونکہ اس کالج میں پروفیسر حضرات بھی کنٹریکٹ پر تھے بلکہ ابھی تک ہیں بلکہ پرنسپل بھی کنٹریکٹ پر ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے جتنے بھی پرنسپل آتے رہے ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے جہاں کالج کے بچوں کے رزلٹ خراب آنے لگے وہاں پر غیر نصابی سرگرمیاں بھی ختم ہو گئیں اور ساتھ ہی بچوں کی تعداد بھی کم ہو کر 500 کے قریب آ گئی کسی بھی معاشرے میں تعلیم ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے کوئی بھی معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اللہ کا کرم ہے کہ کہوٹہ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اس علاقے میں آپ کو جرنیل بھی ملیں گے اکثریت فوجی جوانوں کی اور جنہوں نے اپنے پیارے پاکستان کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کیے اسی طرح سے یہ مٹی بڑی زرخیز ہے اس نے بڑے بڑے سیاستدان بھی پیدا کیے جو نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی بھی نمائندگی کرتے ہیں تعلیمی شعبے میں بھی اگر اساتذہ خوشحال ہوں گے اور ان کو گھریلو پریشانیاں نہیں ہوں گی تو وہ کالجز میں بچوں کو بہتر طریقے سے تعلیم دے سکیں گے مگر بد قسمتی سے گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج میں جو پروفیسر حضرات تعلیم دے رہے ہیں وہ قابل ہیں مذہبی حوالے سے بھی اس کالج میں پروفیسر حافظ عبدالصبور‘ پروفیسر حافظ عابد جیسی شخصیات موجود ہیں جو نہ صرف دنیاوی تعلیم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت بھی کرتے ہیں مگر جس ادارے کا سربراہ ٹھیک ہو گا تو اس ادارے کے بچے اور پورا سٹاف بھی اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کریں گے گورنمنٹ بوائز کالج میں ایک ایسی شخصیت بھی موجود ہے جس کا نام راجہ شبیر ہے جس کو تقریباً 24 سال ہو گئے اس کالج میں بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے ان کے اندر جو اللہ نے صلاحیتیں اور خوبیاں عطا کی تھیں وہ ان کو استعمال کرتے رہے مگر اپنے اختیارات کے اندر رہتے ہوئے جتنے بھی ان سے قبل پرنسپل آتے رہے ان کے دوران شکایات آتی رہی رزلٹ بھی اچھے نہ تھے بچے بے راہ روی کا شکار تھے تعداد بھی روز بروز کم ہوتی رہی مگر اب جبکہ 8 ماہ ہو چکے راجہ شبیر احمد بطور پرنسپل اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے اس سے قبل یہ بھی ہوتا تھا کہ ادارے کے پرنسپل اور پروفیسر حضرات کے درمیان تعلقات اتنے بہتر نہ تھے جس کی وجہ سے تعلیمی حوالے سے خامیاں رہتی تھیں بہرحال عرصہ 8 ماہ سے کالج میں روز بروز بہتری آ رہی ہے پرنسپل راجہ شبیر احمد جہاں اپنے اساتذہ سے بہتر تعلقات رکھتے ہیں اور باہمی مشاورت سے کالج کی صورت حال بہتر کرنے لگے ہوئے ہیں وہاں پر انہوں نے کالج میں کھیلوں کے میدان بھی آباد کر دئیے ہیں کیونکہ کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے کھیلوں کا ہونا ضروری ہے اب کالج میں آپ کو گیٹ کے باہر بچے نہیں ملیں گے پروفیسر حضرات کی نگرانی میں کالج کے گیٹ کے اندر غیر نصابی سرگرمیاں ہوتی ہیں سالانہ کھیلوں کے مقابلے بھی کروائے جاتے ہیں بوائز کالج جس کی عمارت کافی عرصہ سے رنگ و روغن سے بغیر تھی شبیر راجہ نے اس کو رنگ و روغن کروا کے خوبصورت بنانے میں کردار ادا کیا تقریباً 8 سے 10 لاکھ کا ایک واٹر پلانٹ لگایا گیا ہے جس میں سے نہ صرف سینکڑوں بچے صاف پانی پیتے ہیں بلکہ آس پاس کے لوگ بھی اس سے مفید ہوتے ہیں مخیر حضرات کے تعاون سے کالج کی دیگر سہولیات و بھی پورا کیا جا رہا ہے ان تمام تر اقدامات کے علاوہ سب سے بڑی بات کہ اس جدید دور میں جب موبائل سسٹم اور دیگر ٹیکنالوجی کی وجہ سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہے کالج میں مذہبی حوالے سے بھی سرگرمیاں عروج پر ہیں حافظ عبدالصبور پروفیسر عابد اور دیگر اساتذہ کی نگرانی میں محفل نعت حضور کی سیرت کے حوالے سے تقریری مقابلہ جات کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت پرنسپل بوائز ڈگری کالج شبیر راجہ نے کی جبکہ اس کے مہمان خصوصی سیاسی سماجی شخصیت چئیرمین غلام ربانی ویلفیئر فاؤنڈیشن کہوٹہ آصف ربانی قریشی تھے اس تقریب میں تحصیل بھر کے سرکاری اور پرائیویٹ کالجز کے بچوں نے حصہ لیا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت اور سیرت کے حوالے سے تقریریں کی گئیں اور ان کے ہاں عقیدت کے پھول نچھاور کیے اس موقع پر آصف ربانی قریشی نے کالج کے اساتذہ بچوں اور بچیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام سے دوری کی وجہ سے ہمارا معاشرہ طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہو گا انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی فری کڈنی سنٹر کا قیام عمل میں لایا اور دو سال تک اللہ کی مدد سے پر امن طریقے سے چلایا گیا ایک diagnostic سنٹر بھی آخری مراحل میں ہے جبکہ الفتح ووکیشنل ٹریننگ سنٹر برائے خواتین بھی چل رہا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے آغاز کر دیا اب یہ آپ نوجوانوں کا کام ہے کہ اس کو سنبھالیں بلڈ بینک میں اپنا کردار ادا کریں آئیں اس سنٹر کا وزٹ کریں یہ آصف ربانی کا نہیں پورے کہوٹہ کے عوام کا ہے انہوں نے کہا کہ آپ جیسے تعلیم یافتہ نوجوان ہی میرے ہاتھ مضبوط کر سکتے ہیں جبکہ پرنسپل شبیر راجہ اور دیگر اساتذہ میری مزید تربیت کرنے میں کردار ادا کریں انہوں نے اس موقع پر کالج کی بہتری کے لئے ایک لاکھ روپے بھی دئیے اور کہا کہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں میں ان کے لیے ہر وقت حاضر ہوں پرنسپل شبیر احمد اور دیگر اساتذہ نے آصف ربانی کی خدمت کو زبردست خراج تحسین پیش کیا انہوں نے کہا کہ کالج کے اساتذہ کا سروس سٹرکچر نہیں ہے اتنے سال سروس کے باوجود ان کو کوئی benefit نہیں مل رہا ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کی کمی کو پورا کیا جائے اور پنجاب حکومت ان اساتذہ کو مستقل کر کے دیگر ملازمین کی طرح سہولیات فراہم کرنے انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ ایم این اے صداقت علی عباسی نے 18 کروڑ بلڈنگ کے لیے جو اعلان کیا تھا جس کا پی سی ون بھی ہو چکا جلد فنڈز دیں گے تاکہ اس کالج کو اپگریڈ کر سکیں جبکہ کالج کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے رزلٹ بھی انشاء اللہ پہلے سے بہتر ہوں گے ایسوسی ایٹ کالج کہوٹہ بہت جلد اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرے گا منتخب نمائندوں کی توجہ ضروری ہے آخر میں پوزیشن لینے والوں میں آصف ربانی نے انعامات تقسیم کیے۔
