713

دیہاتی زندگی اور رہن سہن

ثقافت اخلاقی و معاشرتی رسم و رواج ،روایات تاریخ اور خیالات کے اظہار کا مجموعہ ہے ہر معاشرے میں ثقافت کو باہمی اتحاد اور یگانگت کی علامت تصور کیا جاتا ہے ہمارا دیہی معاشرہ بھی اپنی منفرد ثقافتی اقدار کا حامل ہے ماضی میں ثقافتی سرگرمیاں عروج پر تھیں مگر موجودہ دور میں الیکٹرانکس میڈیا کے فروغ یعنی موبائل فون،واٹس ایپ، فیس بک ،ٹوئٹر جیسی ایپلیکیشنز کی ایجاد نے ثقافتی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے تاہم ان نت نئی ایجادات کے باوجود دیہی معاشرے کے اندر اب بھی ایسی روایات اور سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں ثقافتی روایات کی پاسداری کے تحفظ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے اولیائے کرام کے سالانہ عرس کے موقعہ پر ماضی کی طرح اب بھی بیل دوڑ کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں علاقے اور اردگرد سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے اور بیل دوڑ سے لطف اندوز ہوتے ہیں ان مقابلوں میں درجہ بہ درجہ پوزیشن حاصل کرنے والے بیل مالکان کو نقد انعامات سے نواز جاتا ہے ایسے مقابلوں کے انعقاد سے نہ صرف فراغت کے لمحات میں لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے بلکہ علاقے میں اچھی نسل کے مال مویشی پالنے کے رجحانات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اسکے علاوہ کبڈی کے میچیز بھی شائقین کو اچھی تفریح مہیا کرتے ہیں ایسے ایونٹ کے انعقاد پر اردگرد کے علاقے کے افراد کو ایک دوسرے کیساتھ میل ملاقات کے مواقع بھی میسر آتے ماضی میں ثقافتی روایات کو نبھاتے ہوئے گندم کی کٹائی کے موقع پر بھی عزیزواقارب اور دیگر اڑوس پڑوس اور گاؤں کے لوگ ہاتھ بٹانے کے لیے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجایا کرتے تھے خاص کر گندم کی گہائی کے موقع پر لازوال اجتماعیت کے جذبات دیکھنے کو ملتے تھے گندم کی گہائی کے اختتام پر مہمانوں کی خاطر تواضح حلوے اور مسور کی دال سے کیجاتی تھی خاص کر حلوے کی ڈش کو اس موقع پر خاصی مقبوليت حاصل تھی دن میں تندور کی روٹی اور دیسی گھی کا استعمال کسانوں کے لیے طاقت کا انمول خزانہ تھا سرسوں کا ساگ مکئی کی روٹی اور خالص مکھن من پسند غذاؤں میں شامل تھے شادی بیاہ کی تقریبات میں ثقافتی رقص لڈی بھنگڑا ‘سمی”جگنی اور ڈانس مشہور تھے بیساکھی بھی پنجاب کا بڑا اہم تہوار منایا جاتا ہے یہ دن اپریل کی 13’14 اپریل کو منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جب پنجاب میں گندم کی فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے بیساکھی کا دن سکھ مذہب میں بھی نہاہت اہمیت کا حامل ہے اب وہ ماضی کا رکھ رکھاؤکے جذبات ماند پڑ گئے ہیں اب گندم کی فصل کو سمیٹنے کے تمام مراحل جدید مشنیری کے ذریعے انجام پاتے ہیں ہمار ی دیہاتی ثقافت میں بڑوں بزرگوں کے قول وقرار کا بڑا مان رکھا جاتا تھا گھریلو خانگی معاملات کی درستگی ہو یا اجتماعی مسائل کا حل خاندان برادری کے بزرگوں کے سنائے گئے فیصلوں کو من و عن تسلیم کیا جاتا تھا غمی خوشی کے موقع پر خوشیاں اور دکھ آپس میں بانٹ لیتے تھے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کے جذبات نمایاں تھے مگر اب وقت تو وہی ہے مگر ہماری روایات اور سوچ کا معیارات بدل گئے ہیں ۔آج ہم سب ان تمام روایات اخلاقیات اور رسومات کو بھول چکے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے اپنا رکھی تھیں وہ خصلتیں جنکی بنا پر خاندان ،برادری کے اندر بے چینی اور افراتفری اور لڑائی جھگڑوں کا نام ونشان نہ تھا آپسی خانگی چپقلش کی صورت میں تھانہ کچہری جانے کی بجائے پنچائیت کا نظام رائج تھا بزرگ آپس میں ہاہمی گفتگو اور مشاورت کے زریعے تمام مسائل کا پرامن اور دیرپا حل تلاش کر لیتے تھے انکے سنائے گئے فیصلوں میں حق اور سچ کی آمیزش تھی جب بھی فراغت کے لمحات میسر ہوتے ایک دوسرے کے حال احوال پوچھنے ایک دوسرے کے گھر پہنچ جاتے تھے ہمارا ملک ایک کثیر الثقافتی معاشرہ ہے ملک کے کونے کونے میں مرد شلوار قمیض پہنتے ہیں تاہم بلوچ بھائیوں کی شلوار قمیض دیگر صوبوں سے ذرا مختلف ہے گو ہمارا دیہی معاشرہ بھی اپنے اندر ثقافتی اقدار سمائے ہوئے ہے تاہم گزرتے وقت کیساتھ نوجوان نسل اور معاشرے کے افراد میں ان روایات کی پاسداری کے پہلوؤں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے موجودہ نفسانفسی کے دور میں وقت یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے رسم و رواج اور روایات کو دوبارہ جلا بخشیں جنکی اپنائی گئی روایات پر معاشرے کی مضبوط اخلاقی بنیادیں استوار تھیں مگر ان روایات کو زندہ رکھنے کے لیے نوجوان نسل کو بزرگوں کے حالات زندگی اور دیہی ثقافت کے بارے میں حقائق جاننے کیلیے ثقافتی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا اگر ہم ازسر نو اپنی دیہی ثقافت کو اجاگر کرنے اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے میں کامیاب ہوجائیں تو نہ صرف ہمارے بہت سے مسائل کا تدارک ممکن ہے بلکہ موجودہ دور میں افراد کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں کی خلیج کو بھی کافی حدتک کم کیا جا سکتاہے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں