استاد کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنہوں قوموں نے استاد کے مقام کو پہچانا اس وقت اقوام عالم پر فوقیت رکھتی ہیں اسلام میں بھی استاد کو اہم مقام حاصل ہے اور نبی کریمﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ اساتذہ روحانی والدین ہوتے ہیں ان کا احترام بھی اسی طرح کرو جیسے اپنے حقیقی والدین کا کرتے ہو۔ وطن عزیز میں ہمارے حکمرانوں نے اساتذہ کو کمزور ترین پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ آج کا استاد اپنے شاگرد سے خوفزدہ ہے۔حکمرانوں نے اساتذہ کی مانیٹرنگ کے لیے مضحکہ خیز حکمت عملی بنائی ہے۔ مڈل پاس آرمی کے ریٹائرڈ حوالدار ہائی سکول کے سترہویں سکیل کے ہیڈماسٹر کو آگے لگایا ہوتا ہے۔ ساتویں سکیل کے آفس کلرک نے سترہویں گریڈ کے ٹیچر کو اپنے سامنے کھڑا کیا ہوتا ہے۔ ساتویں سکیل کے یونین کونسل سیکرٹری نے ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر کی پھرکی گھمائی ہوتی ہے۔یہی سیکرٹری یونین کونسل یا آفس کلرک سترہویں سکیل کے اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے ہاتھ باندھے اور نظریں جھکائے کھڑے ہوتے ہیں۔وہ شخصیت جس نے قوموں کو تعمیر کیا ہے، جس نے سائنسدان ڈاکٹرز اور انجنئیرزپیدا کرنے ہیں اسے کوئی تحفظ حاصل نہیں۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر گورنمنٹ بوائز ہائی سکول دولتالہ کے اساتذہ کے خلاف ایک پوسٹ گردش کر رہی تھی۔ اس سے عوام میں سخت غم و غصہ پایا جارہا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کسی پرائیویٹ سکول کے بچوں کو ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ بوائز ہائی سکول دولتالہ نے اپنے سکول میں داخلہ دیا۔ پرائیویٹ سکول کے مالک کو اس بات پر غصہ آیا کہ ان بچوں نے اس کے سکول چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ لیا ہی نہیں اور ہیڈ ماسٹر نے بغیر سرٹیفیکیٹ کے انہیں کیوں داخل کیا۔ ہیڈ ماسٹر کے اس جرم کی پاداش میں سکول کے اندر کھیلتے ہوئے بچوں کی چوری چھپے تصاویر بنا لی گئیں اس کام میں سکول کے اندر سے ہی کسی ٹیچر نے ان کی معاونت کی اور انہیں اس کیپشن کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا گیا کہ گورنمنٹ ہائی سکول میں بچوں سے صفائی کا کام لیا جاتا ہے یہ ہمارے معاشرے کا استاد کے خلاف وہ گھناؤنا کردار ہے جس نے استاد کے تحفظ کو ختم کردیا ہے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن
آفیسر(سیکنڈری) نے ہیڈ ماسٹر کو شوکاز نوٹس جاری کردیاہیڈ ماسٹر نے اس شوکاز کا جو جواب دیا ہمارے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی حالت دیکھیں کہ وہ جواب اس نے اس شخص کو وٹس ایپ پر بھیج دیا جس نے گورنمنٹ ہائی سکول دولتالہ کے خلاف مہم چلائی ہوئی تھی۔ کیسے کیسے لوگ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے ہیں۔ عوامی و سماجی حلقوں نے جہاں اساتذہ کے خلاف چلائی گئی مہم کی مذمت کی ہے وہیں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سیکنڈری کے بزدلانہ کردار کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔سکول کے طلبہ کا کہنا تھا کہ سکول میں ہم سے کبھی بھی صفائی ستھرائی کا کام نہیں لیا گیا۔ ہم اپنے اساتذہ سے مطمئن ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہمارے سکول اور اساتذہ کے خلاف جاری مہم ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ ہمارا سکول ہمارا گھر ہے اور ہمیں اس سے بہت پیار بھی ہے۔ ہیڈ ماسٹر ظفر نذیر قریشی کا کہنا تھا کہ ہمارے طلبہ بڑے نظم و ضبط والے اور ہونہار ہیں۔ ہمارے پاس درجہ چہارم کے ملازمین موجود ہیں ہم طلبہ سے کام کیوں کرائیں گے؟ گورنمنٹ ہائی سکول دولتالہ کی تاریخ یہ ہے کہ اس ادارے نے بڑی قدآور شخصیات پیدا کی ہیں۔ ایک سپاہی سے لے کر میجر جنرل تک، ایک نرسنگ سے سرجن جنرل تک، ایک مکینک سے انجنئیرتک اور ایک کلرک سے وفاقی سیکرٹری تک کی شخصیات یہاں سے فارغ التحصیل ہیں۔ جتنے بھی بڑے لوگ ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تو اپنے اساتذہ کی گندم کاٹنے بھی ان کے گاؤں جایا کرتے تھے۔ اپنے سکول میں پودوں کو پانی دینا اور ہفتہ صفائی میں پورے گراؤنڈ کو صاف کرنا طلبہ کی ہی ذمہ داری ہوتی تھی۔ کوئی بڑا افسر آجائے تو اس کی خدمت خاطر کے لیے شہر سے جا کر انڈے یا لسی لے کر آنا تو عام سی بات تھی۔ ادارے کے سابق طلبہ کا کہنا تھا جب تک استاد کااحترام اور رعب و دبدبہ قائم رہا توانجنئیرز، ڈاکٹرز، سیکرٹریز اور کرنل جنرل پیدا ہوتے رہے اب تو سوشل میڈیا پر استادوں کے خلاف مہم چلانے والے پیدا ہورہے ہیں۔عوامی و سماجی حلقوں کا کہنا تھا دولتالہ میں بے شمار پرائیویٹ سکول ہیں جن کا بڑا نام ہے جیسے اقبال ماڈل ہائی سکول، الامیر فاؤنڈیشن اور الائیڈ سکول وغیرہ یہ سب ادارے صحت مند مقابلے کررہے ہیں۔ اپنے ادارے کا نام بنانا ہے تو سوشل میڈیا کا سہارا چھوڑ کر عملی میدان میں کام کریں اور والدین کو نتائج دیں تاکہ وہ آپ کے ادارے کو چھوڑ کر کہیں اور نہ جائیں۔گلی محلے میں کھولے گئے سکولوں کی بھی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ واپڈا سے ریٹائرد لائن مین جس کی اپنی تعلیم میٹرک ہے وہ بھی سکول کھول کے بیٹھ جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک بنگلے یا کوٹھی میں کھولے گئے سکول میں بچوں کی کیا تعلیم دی جاتی ہوگی۔ یا وہ مالکان جن کی اپنی تعلیم میٹرک یا ایف اے ہے یا وہ لوگ جنہیں اساتذہ کا مقام ہی نہیں پتہ جنہیں خود تربیت کی ضرورت ہے وہ قوم کے بچوں کو کون سی تعلیم و تربیت دیں گے؟ والدین کو اس بارے میں سوچنا ہوگا اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کو اس بارے میں جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔
