حضرت امیر عبد القدیر اعوان
دنیا میں آنکھ کھولنے سے لے کر میرے دنیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے تک کے تمام تر مراحل جس کی نگاہ میں بسر ہوۓ وہ ریشم و فولاد، شفقت و جلال سادگی و جمال اور معصومیت و دانشِ کمال کا بے حد حسین امتزاج تھے۔ قدم قدم چلنے سے لے کر اپنے قدموں پہ کھڑا ہونے کے قابل بنانے تک، ان کی تربیت چلتی ہوئی سانسوں کی طرح بالکل غیر محسوس انداز سے، میرے کردار کی تعمیر و تشکیل کرتی رہی۔ گھر کی ذمہ داری تھی یا سلسلہ عالیہ کی خدمت، انھوں نے میری کم عمری کے باوجود جس اعتماد سے میرے کندھوں پہ ڈالی وہ درحقیقت خود میرے اندر اعتماد پیدا کرنے کے لئے تھی۔ وہ میرے شیخ بھی تھے اور میرے والد بھی۔ سفرِ حیات میں یہ ان کی راہنمائی ہی تھی کہ امورِ سلسلہ میں، کبھی بھی شفقتِ پدری کی رعایت میرے ذہن میں آئی نہ آدابِ شیخ ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ بھی بحیثیت والد کبھی انہیں خود سے دُور پایا۔ وہ میری زندگی کا محور و مرکز تھے۔ وہ میری منزل بھی تھے اور نشانِ منزل بھی۔ ان کی خوشنودی مجھے اپنی ہر خوشی سے عزیز تر تھی اور وہ ذات، مجھے اپنی ذات سے بڑھ کر عزیز تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میں، میں نہ رہا تھا، “ وہ “ ہو گیا تھا۔ ان کی خواہش، ان کی رضا، ان کی خوشی ان کی چاہ ہمہ وقت میری جستجو میں رہتی اور مجھے سر گرمِ عمل رکھتی۔ ان کے مزاج میں لحاظ و مروت اس درجہ تھی کہ اپنی راۓ دینے کے بعد ان کی نگاہ میری جانب اُٹھتی اور بحمد للہ مجھے سرِ تسلیم خم پاتی ۔قارئینِ کرام والد اور پھر ایسے والد ! شیخ اور پھر ایسے شیخ !!انھوں نے کبھی بھی اولاد کو کوئی حکم نہ دیا۔ ہاں یہ خواہش ضرور رکھتے تھے کہ اولاد بن کہے، ان کی رضا جان لے۔ اس معاملہ میں وہ اشارۂ آبرو کے بھی قائل نہ تھے۔ ہاں وہ خود ضرور ہر بچے کی مزاج، عادات اور خواہشات سے خوب واقف تھے۔ کسے، کب، کیا اور کیوں چاہیے ؟ وہ جانتے تھے۔ وہ ہر ایک کی ضرورت ہی نہیں، چاہت بھی جان جاتے اور پھر اس کی تکمیل کر دینے کے بعد لفظ “ شکریہ “ بھی غیر ضروری سمجھتے محض ایک چیز ضرور چاہتے، لینے والے کے چہرے کی خوشی۔ وہ خوشیاں بانٹ کر خوش ہونے والوں میں سے تھے اور یہ معاملہ فقط اولاد تک محدود نہ تھا۔ اولاد کے قلب میں طلبِ حق کی رمق بھی انہیں دنیا کی ہر خوشی سے بڑھ کر تھی۔ ان کا ذکر، ان کے مراقبات، ان کی ترقئ درجات انہیں سرشار کر دیتی اور کسی کو غفلت میں دیکھتے تو آزردہ ہو جاتے لیکن یہ آزردگی بھی ان کی ذات تک ہی محدود رہتی۔ ان کا دِل، ایک ماں کے دل سے بڑھ کر گداز تھا اور وہ باپ کی طرح اولاد کو اوجِ کمال پہ دیکھنے کے آرزومند تھے۔ وہ گلوں، شکوؤں کے قائل نہ تھے۔ تمام تر حیات میں کبھی کوئی کمزور جملہ ان کی زباں سے ادا نہ ہوا۔ وہ کوہِ گراں بھی تھے اور بحرِ رواں بھی، وہ صدف بھی تھے اور ابرِباراں بھی، شبنمِ گل بھی تھے اور تجلئ ابر بھی۔ دنیوی حاجات کے لیے ملنے والا بھی انہیں کبھی بھلا نہ پایا اور جس نے انہیں جان لیا وہ تو خدا یاب ہوا۔ ان یہ مقدر کی بات ہے کہ کس نے کتنا جانا ! اپنے مرید انہیں اپنی اولاد کی طرح عزیز تھے۔ دکھ درد سنانے والا خود تو ہلکا پھلکا ہو کر چلا جاتا لیکن وہ اس بار کو اپنے دل میں محسوس ہی نہیں اس کی شدت کو برداشت بھی کرتے۔ ان کی آہِ سحرگاہی میں ہر ایک دُودِدل کا درد موجود ہوتا۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کون اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسا قلب ان دلوں کے لیے کیا درد رکھتا تھا جو اس دل کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ ایسی عطا شعار ہستی اپنے سینے میں ان کے لیے کیا کچھ رکھتی تھی جن سینوں میں اس کے اپنے نام کی شمع فروزاں تھی۔ مرید تو اپنی حیثیت کے مطابق محبت کرتا ہے لیکن شیخ کی محبت اپنے مقام و ظرف کے مطابق ہوتی ہے۔
اور پھر کون یہ سمجھا سکتا ہے کہ شیخ کے قلب میں انوارات کا سیلِ رواں ان قلوب کی جانب کس طرح امڈتا ہے جس قلب کی طلب ہی وہ فیض بے کراں ہو۔ کسی نے کہا تھا:
جسے میں سناتا تھا دردِ دل
وہ جو پوچھتا تھا غمِ دروں
وہ گدا نواز بچھڑ گیا
وہ عطا شعار چلا گیا
مگر نہیں ! وہ بچھڑے نہیں ہیں۔ نہ وہ گۓ ہیں۔ وہ ہم سب کا اپنے اللہ کریم سے ایسا تعلق جوڑ گۓ ہیں جس نے خود انہیں بھی بچھڑنے نہیں دیا۔ انہیں بھی جانے نہیں دیا۔ وہ خود فرما گۓ ہیں: “ دلوں کے باسی کہیں جایا نہیں کرتے۔” ہاں جاتے جاتے جہاں مجھے اپنے فیضانِ قلب کا امین بنا گۓ ہیں وہاں اپنے مریدوں کو بھی میرے لیے مراد کر گۓ ہیں جہاں مجھ خطاکار کو برکاتِ رسالت کے تسلسل کا حصہ بنا گۓ ہیں وہاں آپ سب کا درد بھی عطا کر گۓ ہیں۔ آپ سب میرے پاس ان کی وہ امانت ہو جو مجھے اپنی حفاظت کے لیے ہر لمحہ چوکنا اور لرزہ براندام رکھتی ہے۔ آپ سب میری دعاؤں کا حصہ ہی نہیں بنے، دل کے مکیں اور گویا وجود کا حصہ ہو گۓ ہو۔ میرے پاس یہی ان کی سب سے بڑی وراثت ہے !
94