136

درندگی کی انتہا ، آخر کب تک ؟

عبدالستار نیازی(گوجرخان)
ایسا لگتاہے کہ 8سالہ کمسن زینب میرا دامن پکڑ کر مجھے آواز دے رہی ہو کہ کیا کیا تم نے میرے لئے ، اتنے لکھنے والے اتنے لکھاری سب لفظوں کا کھیل کھیلتے ہیں، لیکن کب تک میری جیسی معصوم کلیوں کو مسلا جاتا رہے گا اور میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، زینب کی چیخیں میرے کانوں میں سنائی دیتی ہیں، کیسے اُسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور کیسے اس کا گلا دبا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا؟ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ، پنجاب کے علاقے قصور میں ایک سال کے دوران 7کمسن بچیوں کو اغواء کر کے یوں ہی قتل کر دیا گیا لیکن قانون خاموش ہے، ہمارا معاشرہ انسانیت کے آخری زمرے سے بھی گر چکاہے، اور ہم سب تماشہ دیکھ رہے ہیں، ریاست کی طرف سے اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی طرح اس کی عزت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے، لیکن ریاست خاموش ہے، اور کبھی قانون حرکت میں آ بھی جائے تو ایسے ثبوت مانگے جاتے ہیں جس سے ملزم بآسانی نکل جاتاہے،

عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس دور میں بھی جہالت کا سارا سامان ہم نے ایک گٹھڑی میں باندھ رکھا ہے اور ہمارا قانون اس گٹھڑی کو سر پر رکھے ناچ رہاہے، میں یہ بات بہ بانگ دہل کہتا ہوں کہ اس درندگی کے مرتکب شخص کو سرعام پھانسی دی جائے تاکہ آئندہ کوئی کسی کی زندگی کو گدھ بن کر نوچنے کی ہمت نہ کرسکے، جنسی زیادتی ایک بھیانک جرم ہے ، قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ، قتل کی صورت میں تو ایک بار جان چھین لی جاتی ہے جبکہ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والا جسم بار بار مرتاہے، اس کی روح کو اس طرح نوچا گیا ہوتا ہے کہ وہ گھائل روح زندگی کی طرف کبھی لوٹ نہیں پاتی ، جسم تو زندہ رہتاہے لیکن وجود مرجاتاہے ، کسی بھی انسان کے قتل کا کوئی جواز ہوسکتاہے مگر کسی کو بے عزت کرنے کا کوئی جواز تلاش نہیں کیاجاسکتا، سوائے اس کے کہ انسانیت درندگی کی غلام بن جائے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد ایک فرد جنسی زیادتی کا نشانہ بنتاہے، جبکہ ہر چار سے آٹھ دنوں میں اجتماعی زیادتی کا ایک واقعہ سامنے آتاہے

، یہ تو وہ واقعات ہیں جو درج کئے جاتے ہیں ، واقعے کا سامنے نہ آنا یا متاثرہ گھرانے کا خاموش رہنا بھی جرم کو چھپانے میں کردار ادا کرتاہے، جنسیات وہ موضوع ہے جس پر ہمارے معاشرے میں کھل کر بات نہیں کی جاتی جبکہ ہم میں سے ہر ایک اس حقیقت سے واقف ہے کہ ہمارا معاشرہ کس حد تک تنزلی کا شکار ہوچکاہے، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومتی سطح پر اور این جی اوز اس طرح کے معلوماتی پمفلٹ شائع اور آگاہی کے پروگرام مرتب کریں، جن میں جنسی بے راہ روی کے نقصانات کے بارے میں بتایا جائے اور خواتین کی عزت اور احترام سے متعلق بنیادی باتوں کا شعور دیاجائے

، پاکستان میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک وجہ الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے والے ہیجان انگیز مناظر بھی ہیں ، ایسے مناظر جنس کی طرف مائل افراد کی نفسیات پر بہرحال اثرات مرتب کرتے ہیں اور ایک ایسے ملک میں جہاں بڑے سے بڑا جرم کرنے والے بھی سزا سے بچ نکلتے ہیں، وہاں یہ مناظر بھی کسی انسان کو درندہ بنانے کیلئے کافی ہیں، یہ قتل نہیں ، یہ چوری نہیں، یہ ڈاکا نہیں ، یہ روح کو زخم زخم کرنے دینے والا وار ہے، یہ معصوم بچوں کی معصومیت چھین لینے والا بھیانک فعل ہے، حکومت ہو، میڈیا یا معاشرہ ہو، اپنے سماج کو اس درندگی سے بچانے کیلئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو کتنی ہی عزتوں کو پامال کر چکی ہے،قصور واقعہ سے پہلے اور اس کے بعد نجانے کتنے گھر اُجڑے ہوں گے، نہ جانے کتنی عزتیں پامال ہوئی ہوں گی مگر لوگ اپنی عزت بچانے کیلئے آواز اٹھاتے نہیں، کیونکہ میڈیا پہ پھر تماشا بنتاہے، تصاویر اور ویڈیوز چلتی ہیں ، عزت نفس مجروح کی جاتی ہے، قصور واقعہ کے بعد پشاور میں آسمہ قتل کیس کے ملزم تاحال گرفتار نہ ہوسکے،

کراچی میں شاہ زیب قتل کیس کے بعد انتظار قتل کیس میں بھی کوئی ملزم گرفتار نہ ہوسکا، کراچی میں ہی مبینہ پولیس مقابلے میں مبینہ دہشتگرد نقیب محسود کی ہلاکت بھی ایک معمہ ہے، جس کی تفتیش جاری ہے، نہ جانے کب اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا، یہاں دن دیہاڑے کیمرے کی آنکھ کے سامنے رینجرز اہلکار ایک نہتے نوجوان کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں ،ا نکوائری ہوتی ہے سزائیں ہوتی ہیں اور پھر صدر پاکستان صاحب ان کی سزائیں معاف کر کے انہیں ایک بار پھر کھلی چھٹی دیتے ہیں کہ جاؤ عیش کرو ، اس ملک میں جب تک مجرموں کو چوراہوں پر نہیں لٹکایا جائے گا تب تک یہ ڈرامہ چلتا رہے گا، انصاف کا بول بالا عدلیہ نے کرنا ہے اور کب کرنا ہے یہ بھی ایک سوال ہے؟؟؟ اپنا اور اپنے ملک کا خیال رکھیے کیونکہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس کے پاسبان ہیں، معاشرے کو ان گندے اور ناپاک ناسور سے پاک کرنے کیلئے ہرشخص اپنا کردار ادا کرے، اپنے بچوں کی حفاظت کیجیے اور انہیں وقت دیجیے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں