خود کشی 248

خود کشی

دین اسلام میں خودکشی کرنا حرام ہے بلکہ کسی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا بھی حرام ہے رسول اکرم ؐنے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مصیبت کے آ جانے کی وجہ سے موت کی تمنااور طول پیش نہ کرے (مسلم)نیز فرمایا”نہ موت کے آنے سے پہلے اس کی دعا مانگے“(مسلم) رسول پاک ؐنے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی تیز دھار آلے کے ساتھ خود کو قتل کیا تو اس کو جہنم میں اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا (بخاری)دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص کو کوئی زخم لگ گیا تھا اس نے بے صبری میں اپنے آپ کو قتل کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں جلد بازی سے کام لیا ہے لہذااس پر جنت حرام ہے(بخاری‘مسلم)اس سے معلوم ہوا کی خودکشی کرنااور دشمن کے مقابلے کے بغیر اپنی جان ختم کر دینا بالکل حرام ہے انسان خود اپنی جان کا مالک نہیں اس لئے مالک حقیقی کی مرضی کے بغیر خودکشی کرنا گناہ کبیرہ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص اللہ کی تقدیر پر جلدی چاہتا ہے اور رب کائنات کے فیصلہ پر خوش نہیں ہوتا خود کشی سے غم و غصہ‘جزع وفزع اور سخت قسم کی بے صبری کا اظہار ہوتا ہے حضور کریمؐنے خودکشی کرنے والے کا جنازہ نہیں پڑھایا لیکن صحابہ کرامؓکو منع بھی نہیں فرمایا (مسلم)اگر کسی شخص نے دنیوی مقصد کے لئے خود کشی کو حلال سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا تو دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گااس کے بر عکس اگر کوئی بندہ اپنی جان حکم الہی کے مطابق غلبہ دین کی خاطر دشمنوں کو قتل یا کمزور کرنے کیلئے اور اللہ کی رضا کے حصول کیلئے اپنی جان قربان کرتا ہے تو یہ جائز ہے بلکہ موجودہ حالات میں ناگزیر اور فرض ہے اور وہ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو گا جہاں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اللہ کی مرضی نہ ہو وہاں جان ومال کھپانا دونوں طرز عمل اللہ کے ہاں مطلوب ایمان کے منافی ہیں اس لئے کفارو مشرکین کے خلاف فدائی حملوں کو خودکشی کہنا غلط بلکہ کفار و مشرکین کے غلبے کوتقویت پہنچانا ہے یہ دراصل کفر کشی ہے یہ حملے اپنی جان کو مقرر کردہ وقت سے پہلے ختم کرنے کیلئے نہیں بلکہ دشمنان اسلام کو نقصان سے دوچارکرنے اور دین اسلام کی حمایت کیلئے سمجھے جاتے ہیں یہ ہر گز خودکشی یا قتل نفس نہیں بلکہ فدائے نفس ہے خودکشی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس‘اپنی زندگی سے بیزار اور رب کریم سے ناراض ہوتا ہے اس کے برعکس فدائی حملہ کرنے والا اپنے آقائے دوجہاں پر جان نچھاور کرنے والا‘شہادت کی تمنا لئے ہوئے اور اپنے مالک کے دیدار کے شوق میں بے تاب اور اللہ کی رحمت کا طالب ہوتا ہے اس کا موت کو گلے لگانا اس صداقت کی دلیل ہے کہ جہاد افضل ترین عبادت ہے اس لئے اپنے آپ کو قتل کرنابے شک نا جائز ہے لیکن دشمنان اسلام کو قتل کرنے کیلئے جان کی بازی لگا دینا عین کار ثواب ہے ایک جانب یقینی موت ہو اور دوسری طرف پوری زندگی اور اس کی رنگینیاں‘مسرت‘دنیا کی دلکشی محبت اور جوانی کی رعنایاں ہوں تو لوگ کیوں یقینی موت کی راہ میں قدم بڑھاتے ہیں انسان کیلئے موت کب اور کیوں؟زندگی کے مقابلے میں پر کشش اور اولین ترجیح بن جاتی ہے اس لئے کہ جب ایک ظالم قوت‘کمزور مسلمانوں کیلئے زندگی کو گالی بنا دے اور مطالبہ کرے کہ روحانی موت اور جسمانی موت میں سے کوئی ایک موت قبول کرو اور کمزور مسلمان کو انسانی حقوق تو درکنار حیوانی حقوق بھی دینے کو تیار نہ ہوتو لازماََکوئی بھی کمزور مومن زندگی کے بوجھ کو حق کی خاطر اتار پھینکنے کو کارثواب سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پھر رحم کرنے والا ہے اور جو سرکشی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے آگ میں جھونکیں گے اور اللہ کیلئے ایسا کرنابہت ہی آسان ہے (النسا)یعنی تم میں سے کوئی قتل نہ کرے کیونکہ تم سب کا ایک دین ہے اور تم ایک نفس کی ماند ہو کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنے آپ کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے حضرت جندب بن عبداللہ حضورکریمؐسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐنے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا اسے کوئی زخم آگیا تو وہ گھبراگیا اس نے چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا خون بہنے لگا حتی کہ وہ فوت ہوگیا اللہ تعالی نے فرمایامیرے بندے نے اپنے نفس کو ہلاک کرنے پر مجھ سے جلدی کی میں نے اس پر جنت حرام قرار دے دی (بخاری) حضرت ابو ہریرہؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے آلے سے قتل کیا تو اس کا لوہا اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ جہنم میں ہمیشہ کیلئے اسے پیٹ میں مارتا رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو زہر سے قتل کیاتو اس کا زہراس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم میں ہمیشہ کیلئے تھوڑا تھوڑا کر کے پیتا رہے گااورجس نے پہاڑسے گراکر اپنے آپ کو قتل کیا تو ہمیشہ‘ہمیشہ کیلئے جہنم میں گرتا رہے گا (بخاری)حضرت ثابت بن ضحاکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐنے فرمایا کہ مومن پر لعنت بھیجنااس کے قتل کرنے کے مترادف ہے جس نے کسی مومن پر کفر کا بہتان لگایا تو وہ اس کے قتل کرنے کے مترادف ہے اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا تو روز قیامت اس کواسی کے ساتھ عذاب دیا جائے گا(بخاری)حدیث میں ایک آدمی کے متعلق ہے جس کو زخم نے تکلیف پہنچائی تو اس نے موت کے بارے میں جلد بازی کی اور اپنی تلوار کی دھار سے اپنے آپ کو قتل کر لیا تو رسول اللہؐنے فرمایا کہ وہ شخص جہنمی ہے (بخاری)آئیے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں رشدو ہدایت عطا فرمائے
اور ہمیں ہمارے برے اعمال کے شر سے محفوظ رکھے کیونکہ وہ سخی داتا فیاض اور بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں