پاکستان کو اللہ تعالی نے مختلف انواع و اقسام کی نعمتوں اور وسائل سے نوازا ہے زرخیز زمین سر سبز و شاداب کھیت اور ان میں لہلہاتی فصلیں ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضامن ہیں وطن عزیز بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور تقریبا 70سے75فی صد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر زرعی شعبہ سے منسلک ہے۔پانچ دریاؤں کی دھرتی پنجاب اپنی زرخیز مٹی کے لحاظ سے پوری دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے اوریہاں کی زرخیز زمین فصلوں کی صورت میں سونا اگلتی ہے گندم ہمارے ملک کی ایک اہم غذائی فصل ہے اور دیگر دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کے لوگوں کی بنیادی خوراک بھی ہے قومی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور گندم کی فصل کو زیادہ منافع بخش بنانے کیلئے پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے جس کیلئے کسانوں کو رعایتی نرخوں پر تصدیق شدہ بیماریوں سے پاک گندم کے بیج، زرعی آلات، مشینری، جڑی بوٹی مار ادویات کی فراہمی ضروری ہے گندم کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے تمام پہلوؤں پر عمل کرتے ہوئے فصل کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے پنجاب میں اپریل کے مہینے میں گندم کی فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے اور بعض علاقوں میں کٹائی کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے خطہ پوٹھوہار میں بھی اپریل کے وسط تک گندم کی رنگت تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے تاہم حالیہ بارشوں اور افق پربادلوں نے سورج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جسکی بنا پر گندم کی فصل کو مناسب حرارت نہ ملنے سے موجودگی حالات میں گندم کی فصل کو نقصان کا اندیشہ اور کٹائی کا عمل بھی تاخیر کا شکار ہے دو دن قبل کلرسیداں بیول گوجرخان اور گردونواح میں شدید ژالہ باری کی وجہ سے گندم کی فصل خاصی متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم روات مانکیالہ ڈہکالہ ساگری ڈھیرہ خالصہ اور یونین کونسل بشندوٹ میں وسیع رقبے پر پھیلی گندم کی فصل کو تیزبارش اور ژالہ باری نہ ہونے کی وجہ سے محفوظ رہی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے وقت بارشوں سے گندم کی تیار فصل متاثر ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں، خطہ پوٹھوہار میں رمضان المبارک کے بعد کٹائی کا عمل شروع ہوجائے گا تاہم کلرسیداں کے علاقے سوئی چیمیاں، بیول دوبیرن کلاں، بسنتہ کے گردونواح کے علاقوں میں دوسرے علاقوں کی نسبت گندم کی کٹائی کا عمل جلدی شروع ہوجاتا ہے جبکہ یونین کونسل بشندوٹ میں اپریل کے آخری ہفتے میں کسان گندم کی کٹائی شروع کرتے ہیں، تاہم آپ میں سے اکثر نے دیکھا ہوگا کہ مانکیالہ پل کے دونوں اطراف گندم کے لہلہاتے کھیت نظر آتے ہیں روات سے لے کر دھانگلی تک اگر سب سے آخر میں گندم کی کٹائی کا عمل شروع ہوتا ہے تو وہ یہی مانکیالہ پل کے اطراف میں گندم کے کھیت ہیں یہاں کٹائی کا عمل مئی تک جاری رہتا ہے جبکہ اس وقت تک دیگر علاقوں میں گندم کی گہرائی مکمل ہوجاتی ہے اور کسان بار دانہ اور بھوسہ اپنے گھروں کے اندر منتقل کر چکے ہوتے ہیں، تاہم ملک کی حالیہ مخدوش معاشی صورتحال اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے عام عوام کی طرح کسان بھی گندم کی فصل کی کٹائی پر اٹھنے والے اخراجات سے کافی پریشانی میں مبتلا ہیں حکومت کو چاہیے کہ بالخصوص گندم کی کٹائی کے دوران پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرے تاکہ کسانوں کو بروقت اپنی فصل ٹھکانے لگانے میں آسانی ہو کیونکہ اب وقت بدل چکا ہے اور کٹائی کے تمام مراحل زرعی مشینری سے سرانجام پاتے ہیں،وہ بھی کیا دن تھے جب گندم کی ہاتھ سے کٹائی کی جاتی تھی سب کسان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے اگر کوئی کسان کٹائی کے عمل میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتا تو پڑوسی اور رشتہ دار اپنی فصل کی کٹائی میں ایک دو دن کر وقفے کر دیتے اور ہاتھ بٹانے کھیت میں پہنچ جاتے یہی اجتماعیت کے جذبات گندم کی گہائی کے موقعہ پر بھی دیکھنے کو ملتے اس دور میں گندم کی گہائی کے موقعہ پر حلوے کی سوغات کے بڑے چرچے تھے بڑوں کیساتھ چھوٹے بچے میں حلوے کی خوشبو پر متعلقہ جگہ کھینچے چلے آتے تھے،اس دور کے لوگ من کے بڑے سچے اور پکے تھے زیادہ تراپنے وسائل کے اندر ہی رہ کے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے یعنی جتنی چادر ہوتی تھی اتنے ہی اپنے پیر پھیلاتے تھے وہ لوگ صدقہ خیرات بھی کرتے تھے اور محلے کے ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت بھی ڈال دیتا تھا اور انکے آنگن میں ذہنی سکون کے ساتھ ساتھ محبت کی خوشیوں کا بھی بسیرا تھا اس زمانے میں قلیل آمدنی کے باوجود لوگوں کے چہرے ہشاش بشاش اور دل بہت وسیع تھے لیکن افسوس کہ ہم دولت کے گھمنڈ غرور اور پیسے کے لالچ اسقدر بے حس ہوچکے ہیں کہ اڑوس پڑوس کی خبر گیری تو دور کی بات اپنے خونی رشتوں کو بھی بھلا بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان دن بدن بے سکونی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔
135