والد محترم راجہ عبدالرحمن جعفری 15 مارچ 1950 میں پیدا ہوئے راجہ برخوردار خان مرحوم کی چھٹی اور سب سے چھوٹی اولاد تھے دادا مرحوم کی ایک بیٹی کم سنی میں وفات پاگئیں تھیں جبکہ سب سے بڑے بیٹے راجہ سیدعالم خان عین جوانی میں فوت ہوئے تھے دادا مرحوم کی دوسری بیٹی قریب پونے دو سال قبل فوت ہوئیں ایک بیٹی اور بیٹا حیات ہیں والد مرحوم نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی عملی زندگی کے آغاز میں کچھ عرصہ واپڈا کے ایک عارضی منصوبہ میں کام کیا10 نومبر 1970 میں ٹی اینڈ ٹی (ٹیلی فون و ٹیلی گراف) کے محکمہ میں مستقل ملازمت کا آغاز کیا ٹی اینڈ ٹی کی نجکاری میں سرکاری ٹیلی فون سہولیات کے لیئے کچھ حصہ کی نجکاری نہ کی گئی اور یوں نیشنل ٹیلی کام کے عنوان سے نیاادارہ تشکیل دیا گیاوالد صاحب کی تعیناتی دوران ملازمت حساس جگہوں پر ہی رہی اسی لیے جب ٹی اینڈ ٹی کی نجکاری ہوئی تو اس وقت بھی والد مرحوم دفتر وزیراعظم میں فرائض سر انجام دے رہے تھے یوں وہ این ٹی سی کا حصہ بن گئے 15 مارچ 2010 کو ساٹھ سال کی عمر مکمل ہونے پر والد مرحوم این ٹی سی سے بطور سپر وائزر ریٹائرڈ ہوئے قریب چالیس سال والد مرحوم نے ملازمت کی والد مرحوم کو تلاوت قرآن سے خصوصی شغف تھا اپنی قراٗت اور تجوید کی درستگی کے لیئے شادی کے بعد انہوں نے مدرسہ آیت الحکیم سے خصوصی کورس کیا قرآن مجید اور تعلیمات قرآن وسیرت محمد وآل محمد علیہم السلام سے اس قدر زیادہ محبت تھی کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد بالخصوص ان تعلیمات کو پھیلانے کے لیے گھر گھر جا کر بچیوں کو بلامعاوضہ پڑھاتے رہے نہ صرف بچے بچیوں بلکہ انکے والدین تک حقیقی علوم محمد وآل محمد علیہم السلام اور قرآن سے روسناش کرواتے رہے یہ سلسلہ اگست 2018 تک جاری رہا اگست 2018 میں انکو پہلی بار فالج کی بیماری نے آن گھیرا اس بیماری کیوجہ سے والد مرحوم کی قوت گویائی اور قوت تحریر دونوں شدید متاثر ہوئیں والد مرحوم اگست 2018 کے بعد صرف ایک فقرہ دوبارہ باربار دہرانے کے قابل ہوئے اور کلمہ تھا ”درود شریف ” بیماری کے باوجود عبادات و تلاوت قرآن سے شغف کم نہ ہوا اور قرآن مجید کو روازنہ کھول کرتحریر پر انگلی پھیرتے ہوئے شوق تلاوت پورا کرتے الحمد اللہ جب والد مرحوم بارگاہ خداوندی میں حاضر ہورہے تھی یعنی وقت نزع اس وقت راقم اسپتال میں ہونے کے باوجود سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے عاشق قرآن کو الوداع کہہ رہا تھا والد مرحوم ہر وقت سماجی فلاح کے منصوبوں کے لیئے متحرک رہتے تھے جہاں بھی ممکن ہوا اپنے علاقہ کے جوانوں کو سرکاری ملازمت میں معاونت کی ٹی اینڈ ٹی کے تقسیم کے بعد این ٹی سی میں کسی وجہ سے دوران ڈیوٹی فوت ہونے پر ملنے والی خصوصی گرانٹ ختم ہوگئی ایک دوست کی وفات کے بعد اس کے بیوہ کے ذریعے کیس کروایا اور انتظامیہ میں موجود اپنے کزن مشتاق حسین جعفری مرحوم کے توسط سے گرانٹ بحال کروائی اسی طرح ایڈمن اسٹاف کو مطمئن کرکے پینشنرز کے لیئے پینشن فارم کی تصدیق میں سہولیات حاصل کیں علاقہ کی فلاح وبہبود کے لیئے پہلے محلے کی سطح پر کمیٹی تشکیل دی جو عرصہ دراز تک اہل دیہہ کی خدمت کرتی ہے اسی طرح ایک حادثہ کیوجہ سے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاہونیوالے افراد کو باقاعدہ فلاح و بہبود کی طرف متوجہ کیا اور یوں جنجوعہ ویلفیئر سوسائٹی کی بنیاد ڈالی سوسائٹی کا تمام دفتری کام والد برسہا برس بلامعاوضہ کرتے رہے اب بھی سوسائٹی کی جانب سے ایمبولینس سروس جاری و ساری ہے البتہ اب ایمبولینس سروس راجہ ثاقب محمود کی ذاتی توجہ سے ہی چل رہی ہے والد صاحب کی ناپ تول اور فیصلوں پر کبھی بھی اقرباء پروری یا بے ایمانی کا اعتراض نہیں ہواہماری رہائش گاہ سے گرلز پرائمری سکول نندنہ جٹال تک زمین داروں کے کھیتوں میں سے والد مرحوم نے اپنے احباب اور زمین مالکان کے توسط سے رستہ عطیہ کروایا اور یوں ہمارے گاؤں کی کثیر آبادی کو گاڑی کا باضابطہ رستہ دستیاب ہوا والد مرحوم نے 1977 میں شادی کی اور انکے ہاں تین اولادیں متولد ہوئیں جن میں راقم سے چھوٹا ایک بھائی اور سب سے چھوٹی بہن ہے تینوں کو والد مرحوم نے اپنی حیات میں شادی کروائی اور دونوں بیٹوں کے لیئے مناسب ترین رہائش بھی تعمیر کیں شادی بیاہ‘ تعمیر مکانات وغیرہ میں والد مرحوم کے بڑے بھائی راجہ محمد رمضان (بڑے ابو) کا کلیدی کردار ہے اللہ پاک ہمارے بڑے ابو کو صحت وسلامتی عطا فرمائے 3اکتوبر 2021 کو صبح آٹھ بجے بروز اتوار والد صاحب اپنے والدین کی قبور کی زیارت کرنے کے بعد اپنی معمول کی چہل قدمی کر رہے تھے کہ پھر سے فالج کا معمولی حملہ ہوا اتفاق سے پہلے والے فالج حملہ کیطرح ہم بروقت انھیں اسپتال لے جانے میں کامیاب ہوئے لیکن اس بار فالج کا حملہ جان لیوا ثابت ہوا 23 اکتوبر شام بعد اذان مغرب والد مرحوم بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوگئے والد مرحوم کا جنازہ 24 اکتوبر بروز اتوار کو جب گھر سے اٹھا ذکر مصائب کربلا ہورہے تھے ازاں بعد جب کلمہ طیبہ کی گونج میں میت کو اٹھایا گیا تو چند قدموں کے بعد بارش شروع ہوگئی جس کا دورانیہ جنازہ کی ادائیگی کیساتھ ہی ختم اور تدفین کے مراحل میں بارش نہ ہوئی ازاں بعد وقت نماز وحشت قبر پھر جم کر بارش ہوئی احادیث کے مطابق دعاکی قبولیت کے اوقات میں بارش کا وقت بھی شامل ہے چار تکبیر نماز جنازہ قاری حافظ حبیب الرحمن صاحب نے پڑھائی جبکہ پانچ تکبیر نماز جنازہ کی امامت علامہ سید اسد نقوی صاحب نے فرمائی اہل خانہ نماز جنازہ میں شریک ہونیوالے اور بعد میں تعزیت کے لیے آنیوالے تمام خواتین و حضرات کے ممنون و مشکور ہیں میں بالخصوص کلرسیداں‘چوآخالصہ‘ چوکپنڈوڑی‘ مانکیالہ اور روات پریس کلبوں کے دوستوں کامشکور ہوں جنہوں نے والد مرحوم کی وفات‘ جنازہ‘ دعائے قل و چہلم کی پرنٹ و الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھرپور کوریج کی اللہ پاک والد مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!پس تحریر: اس تحریر کی شروع کیئے کچھ وقت بیتا تھا کہ ایک جرگہ کی کال آگئی جس میں ایک راستہ کی کشادگی کا معاملہ تھا الحمدللہ یہ معاملہ بااحسن مکمل ہوگیا اور کئی گھرانوں کا راستہ کشادہ ہوگیا۔
