یوں تواسلام نے پل پل لمحہ لمحہ،قدم قدم پرہماری راہنمائی کی ہمارے لئے اصول وضوابط قوانین وغیرہ کومرتب کیا لیکن بعض اوقات انسان نا واقف بن کر، بعض اوقات بھول کر اور بعض اوقات جان بوجھ کرانسان وہ کام کرتاہے جن سے اسلام نے منع کیا ہوتا ہے اور اسلام نے اس برے فعل وعمل سے بچنے کی بھی تلقین کی ہوتی ہے جیسا کہ اسلام نے رشوت لینے سے منع کیا سود خوری، سودی لین دین سے منع کیا وعدہ خلافی سے بچنے کی تلقین کی جھوٹی قسمیں کھانے سے منع کیا والدین کی نافرمانی سے منع کیا،کسی کاناحق مال کھانے سے منع کیا،کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی سے منع کیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح غریب کو حقیرجاننا یا اسکی توہین کرنا بھی جائز نہیں اورجولوگ کسی غریب کی مددکرتے ہیں ان کوچاہیے وہ اللہ تعالیٰ کاشکراداء کریں کہ اللہ نے ان کو توفیق بخشی ہے لیکن یاد رہے مستحق افرادکی مددایسے انداز سے کریں کہ وہ خوش ہوں نا کہ ان کیلئے بے عزتی اور پریشانی کاسبب بنے جیسا کہ انکی ویڈیو اورتصاویربنا کرسوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا یہ نہیں کرنا چاہیے
یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جولوگ دکھلاواکرتے ہیں وہ اپنے اعمال ضائع کررہے ہیں ان کے نا توصدقات عطیات قبول ہیں ناہی اس طرح کی دکھلاوا کی عبادات کیونکہ اس سے اس غریب کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے اوراسلام نے بھی ایسی عبادت سے منع کیا ہے جودکھلاوا کی ہے جو شخص سفید پوشی کی زندگی گزارتا ہے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا وہ یہ بات قطعاً برداشت نہیں کرتاکہ اس کا بھرم سربازار ٹوٹ جائے یا لٹ جائے وہ حالات وواقعات سے نمٹنا خوب جانتا ہے وہ خود بھی اور اپنے گھر والوں کوبھی صبرکی تلقین کرتا ہے لیکن اگراللہ نے کسی کوتوفیق بخش ہی دی ہے کہ وہ کسی غریب مسکین محتاج بے بس بے سہاراکی مدد کرے تواسے یہ نیکی اللہ کیلئے ہی کرنی چاہیے اور اس کا بدلہ اللہ سے ہی لینے کی امید رکھنی چاہیے جیسا کہ اسلام نے حکم بھی دیا لیکن جب عبادت اورنیک کام میں دکھلاوا آجائے تو پھر وہ عمل بھی ضائع ہوجاتاہے اور ممکن ہے اس پر پکڑبھی ہوجیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اے ایمان والو تم احسان جتلا کر یا ایذاء پہنچا کر اپنی خیرات کو برباد مت کروجیساکہ وہ شخص جومال خرچ کرتاہے لوگوں کے دکھلانے کی غرض سے کیا وہ ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور یوم آخرت پر اسکی مثال ایسے ہے جیسے ایک چکنا پتھرجس پرکچھ مٹی ہواس پرزورکی بارش پڑے سو اس کو بلکل صاف کردے ایسے لوگوں کو اپنی کمائی بلکل ذرابھی ہاتھ نالگے گی
(سورہ بقرہ آیت 264) حدیث شریف میں آتاہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں فرمایا رسول مقبولﷺ نے سات آدمیوں کواللہ اپنے سائے میں جگہ دے گا جب سوائے اس سائے کے اورکوئی سایہ ناہوگا عادل حکمران وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کی محبت میں جمع ہوں تواسی کیلئے جب جدا ہوں تو اسی کیلئے وہ شخص جس کو منصب وجمال والی عورت بلائے وہ کہہ دے میں اللہ سے ڈرتا ہوں وہ شخص جوخفیہ طور پرصدقہ دے یہاں تک کہ اس کے دوسرے ہاتھ کوبھی نا پتہ چلے اور وہ شخص جوخلوت میں اللہ کو یادکرے اس حال میں کہ اس کی آنکھیں آنسوسے ترہوجائیں۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ فرمایا رسول مقبولﷺ نے مجھے تم پرسب سے زیادہ شرک اصغر کا خوف ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو انکے اعمال کی جزادیتے وقت فرمائے گاان لوگوں کے پاس جاؤ جن کیلئے تم دنیا میں دکھلاواکرتے تھے لہذا کسی بھی مسلمان کی پریشانی دورکرنے میں اسکی مددکرنا،اسکی تکلیف کوکم کرنے میں حتی الامکان کوشش کرنا‘ بھٹکے ہوئے کو راستہ بتلانا راستہ سے تکلیف دہ چیزکوہٹانا،العرض کسی بھی درجہ میں نیک اورجائزکام کرنے میں مسلمان کی مددکرنا نہایت اجروثواب کاکام ہے اور ذریعہ نجات بھی
اسلامی تعلیمات میں مسلمان کو یہی بات سکھلائی گئی ہے کہ سب سے اچھا اوربہترین انسان وہی ہے جو دوسروں کوفائدہ پہنچائے کسی کو تکلیف نا پہنچائیں، غریب، یتیم، بیوہ، مساکین، کو راحت، پہنچائیں انکی خوشی کاباعث بنیں،انکے غم ورنج کوخوشی میں بدلنے میں ہرممکن کوشش کریں اگرچہ چند لمحے ہی میسرکیوں ناہوں انہیں فرحت ومسرت اورشاد مانی فراہم کرکہ ان کے دکھ، درد، الم، حزن وملال کوہلکا کریں انہیں اگرمددکی ضرورت ہو توان کی مددکریں اگرمالی مددکی استطاعت نا ہوتوکم ازکم ان سے اچھے اندازسے پیش آئیں اسی لئے تونبی اکرم شفیع اعظم ﷺ نے ارشادفرمایا مسلمان وہ ہے جسکے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں،ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا بہترین انسان وہ ہے جودوسرے انسان کیلئے نافع ومفیدہو،یہ بات توواضح ہے کہ جب انسان کسی دوسرے انسان کی مددکرتا ہے توفطری طور پردونوں کے درمیان الفت محبت وعقیدت اخوت اوربھائی چارہ کی فضاء قائم ہوتی ہے
اسی لئے تو نبی اکرم شفیع اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسندکرے جواپنے لئے پسندکرتا ہوکسی کی مالی اعانت کرنا،کسی کو تعلیم دینا اوردلوانا،اچھی بات بتانا، نیک مشورہ دینا مساجدومدارس سے تعاون کرنا، علماء کرام کا ادب واحترام کرنا، راستہ سے تکلیف دہ چیزہٹانا، مسلمان سے اچھے اندازسے پیش آنا،کسی بھی امور خدمت خلق میں حصہ لینا، بے سہاراکوسہارا دینے،حاجت مندکی ضرورت پوری کرنا یہ سب سماجی کام ہیں اور انسان چاہے بھی تواس سماج سے ہٹ کر زندگی نہیں گزارسکتا انسان اگرچہ بے پناہ دولت کامالک ہو بے پناہ صلاحیتوں کاحامل ہو پھربھی وہ اس معاشرے ایک دوسرے کے بغیرنا مکمل ہے اس لئے ہمیں جب بھی اللہ یہ توفیق بخشے ہم اس قابل ہوں کہ مخلوق خداکی مدد کریں تواس بات کو ذہن نشین کرلیناچاہئے کہ ہمیں ان کے جذبات کومجروح نہیں کرناچاہیے صرف اتنی بات ہی سوچ لینی چاہیے کہ اگرانکی جگہ ہم ہوتے ہماری مددکرتے وقت یہی رویہ یہی اندازاگرکوئی ہم سے رکھتا توہمارے دل پرکیا گزرتی۔