پروفیسر محمد حسین
انسانی خوبیوں میں سے حیا وہ خوبی ہے جو انسان کو شرافت تہذیب اور ادب کے سانچے میں ڈھالتی ہے باادب،بانصیب اور بے ادب بے نصیب جو شخص حیا کرے گا وہ باادب ہو گا اور جو باادب ہو گا وہ بانصیب ہو گا جس فرد میں حیانہیں اس میں تہذیب نہیں اور جس میں تہذیب نہیں اس کے نصیب بھی نہیں حیا کا دوسرا نام غیرت شرافت اخلاق اور شرم ہے جبکہ بے حیائی کا دوسرا نام بے غیرتی ،بدمعاشی ،بداخلاقی ،بے شرمی اور بے ادبی ہے باحیاآدمی کو دنیا کا دل پسند اور بے حیا آدمی کو دنیا کا ذلیل فرد سمجھا جاتا ہے بے ضمیر اور بے شرم آدمی کو نہ اپنے خاندان کی عزت فکر ہوتی ہے اور نہ معاشرے کا کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ اپنے رب سے کوئی حیا محسوس کرتے ہیں ہلکا سا خوف حیاداری جبکہ بہت زیادہ خوف بزدلی کے معنوں میں لیا جاتا ہے حیا کو عام طور پرجسمانی شرم و حیا کے برابر سمجھا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ جس نے اپنے جسم کے قابل ستر حصوں کو مناسب طور پر ڈھانپ لیا اس نے حیا کا کردار ادا کر دیا حیا کو عام طو پر عورتوں کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے سمجھا جاتا ہے کہ حیا توبس عورتوں ہی کے لیے اتاری لی گئی ہے اور عورتوں کو ہی زیادہ تر شرم اور لحاظ اختیار کرنا چاہیے بھلا مردوں کو شرم و حیاسے کیا تعلق ؟ حالانکہ حیا ایک وسیع اور مرد وعورت دونوں سے متعلق وصف ہے حیا دراصل انسان کے اندر کی اس جھجھک لحاظ اور شرافت کو کہا جاتا ہے جو اسے بہت سے ناپسندیدہ کاموں سے روکتی اور دور رکھتی ہے وہ سب کے سامنے برہنہ نہیںہو سکتا وہ محفل میں بدتمیزی اور بد تہذیبی نہیں کر سکتا وہ بزرگوں کے سامنے چیخ و پکار نہیں کر سکتا عورت سب کے سامنے نامناسب لباس میںنہیں آسکتی اور محفل میں رہ کر ٹھٹھے مذاق نہیں کر سکتی حیا صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان جسمانی اور اخلاقی لحا ظ سے خود کو درست کرے اور جو برا کام کسی خاص وقت پر نہ کر سکے وہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھے اگر اس وجہ سے کرنے کی ہمت نہ ہو سکے کہ اس پر لوگ کیا کہیں گے تو پھر اسے اس وجہ سے بھی خصوصا ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ اس پر میرا ر ب مالک کائنات کیا کہے گا نظروں سے اوجھل اس کے آسمانوں پر بیٹھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود پر سے عار اور شرم کی کیفیت ہٹا دی جائے کپڑے پہنے ہوں تو اتار دئیے جائیں اللہ سامنے نہ ہو تو رشوتیں لے لی جائیں اور کوئی مرتبہ حاصل ہو جائے تو نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ پر بھی دشنام طرازیاں کر لی جائیں بھلا یہ کوئی بات ہوئی کہ معاشرہ کا خوف ہو تو انسان حیا کرے اور اللہ کو سامنے نہ دیکھے تو انسان بے حیا ہو جائے بلکہ اسے تو مسلسل یہ کہنا چاہیے کہ میں یہ کام نہیں کروں گا اس لیے کہ مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے اگر کسی شخص میں حیا کا تصورراسخ ہو تو وہ بھلائیوں کی جانب بڑھنے میں پیش قدمی دکھائے گا اور برائیوں کی جانب بڑھنے میں پسپائی اختیا رکرے گا حیادار عورت محض اس لیے کسی مرد کا کھلونا اور کسی مصنوعات کا عریاں ماڈل نہیں بن سکتی کہ اس سے چمکتے دمکتے اور کھنکتے ہوئے سکے ملیں گے حیا دار آدمی سڑک کے بیچوں بیچ نیم عریاں حالت میں اپنی غیرت کو نیلام نہیں کرسکتا نبی پاک نے حیا کے بارے میں ایک مختصر ساجملہ کہہ کر بہت ساری باتیں خود ہی واضح کر دی ہیں کہ اگر تمہارے پاس حیانہ ہو تو جو چاہے کرو یعنی پھر تمہیں روکنے والی چیزیں نہ ہوں گی ایک اور موقع پر پر نبی پاک نے تشریح کی تھی کہ نماز اور بے حیائی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے یعنی نماز اس سے بے حیائی کو چھڑوا دے گی یا بے حیائی اسے نما ز کو چھڑوا دے گی نبی پاک نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ لوگوں سے زیادہ اللہ اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس سے شرم کی جائے بے حیا ئی کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے بہت زیادہ باعث فتنہ بنتی ہے کسی کو گالی بک دینے سے کسی کے ماںباپ کو ذلیل کر دینے سے کسی کے کورٹ میرج کر لینے پر سے کسی کے حقوق غصب کر لینے سے اور کسی خاتون کے برسر بزم رقص کر لینے سے اگرچہ مرد اور عورت کو ذاتی فوائد حاصل ہو جاتے ہیں لیکن ان کا روائیوں کے باعث افراد اور معاشرے پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ شرم وحیا کی چادر اتار کر پھینکنے سے متاثرہ فرد اور معاشرہ ظلم کا شکار ہونے لگتے ہیں حیا کا تعلق صرف ذاتی فرد سے نہیں بلکہ پوری قوم سے بھی ہے فرد کی طرح قوم بھی حیاداں ہو سکتی ہے یا بے حیا ہوسکتی ہے قوم کو شرمساری کی طرف لے جانے میں اس کے ارکان مملکت ہی کا تمام تر ہاتھ ہوتا ہے کیوں کہ انھی کی ہدایات و قوانین پر قوم چلتی ہے اور ان کے فرامین پر قوم آگے بڑھتی ہے عوام اپنے بادشاہوں کا طرز زندگی ہی اختیا رکرتے ہیں اگر حکمران اربوں روپے ہڑپ کرتے لاتعداد و غلط کاریاں کر کے اور کئی بے گناہ زندگیوں کو ٹھکانے لگا کے بھی خود کو معزز اور قوم کی قیادت کا اہل قرار دیتے ہوں تو ان کے پیچھے پھر قوم کے عام افراد بھی انفرادی طور پر کیوںنہ قوم کو لوٹنے والے اور قاتل بننے سے پیچھے رہیں گے چونکہ صاحب اقتدار کے پاس ملکی دولت ذرائع وسائل ،ذرائع ابلاغ ،فوج پولیس اور قانون سب کچھ مٹھی میں ہوتے ہیں اس لیے اگروہ چاہے تو قوم کو ترقی کی راہ پر ڈال دیں اور اگر چاہیں تو اسے شرم وحیا کی صفات کا مظہر بنادیں اسوقت جو ہمارے معاشرے کا حال ہے اس سے انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ نتیجہ نکالنا بے جا نہیں کہ حمیت و غیرت ہمیں کسی سطح پر بھی کا ر فرما دکھائی نہیں دیتی ہے بڑے بڑے سنجیدہ لوگوں اور بعض عملی مسلمانوں کے گھروں اور دفتروں کے معاملات میں بھی بے حیائی راج کرتی ہوئی نظر آتی ہے مختصرا کہا جاسکتا ہے کہ حیا انسان کی اس اندرونی صفت کا نام ہے جو مرد و عورت کو ہر آڑے ترچھے کاموں سے روکتی ہے اور یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی مگر ان میں جو اللہ تعالیٰ کو عزیز رکھتے ہیں اور ان میں جنھیں اپنے خاندان اور ملک و قوم کا نام عزیز ہوتاہے
277