حکومت مارچ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے سنجیدہ 156

حکومت مارچ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے سنجیدہ

گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کی زیر صدارت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں بلدیاتی نظام کے ایکٹ 2021ء کا جائزہ لیا گیا تھا جبکہ وفاقی وزیر اسد عمر نے اسلام آباد کے بلدیاتی نظام کے قانون کی سفارشات پر مشتمل مسودہ پر کام کی رفتار کو مزید تیز کرنے کی بھی ہدایات جاری کیں گزشتہ ماہ اکتوبر میں بھی وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اعلی سطحی مشاورت ہوئی تھی لاہور میں منعقدہ اس اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے بلدیاتی انتخابات براہ راست کرانے کی منظوری دی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات براہ راست اور جماعتی بنیادوں پر ہوں گے حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے حالیہ سنجیدگی سے نظر آتا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے پرعزم ہے یاد رہے حالیہ پرانے بلدیاتی سسٹم کے تحت معطل کیے گئے بلدیاتی نمائندے حال ہی میں سپریم کورٹ نے بحال کردیے ہیں جنکی مدت رواں سال 31 دسمبر کو ختم ہورہی ہے تاہم اسکے بعد قانونی تقاضوں کے مطابق حکومت 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کی پابند ہے اس حوالے سے حکومتی اقدامات اور مقامی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں خاصی تیزی آگئی ہے تحصیل کلرسیداں کے سیاسی منظر نامے میں دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے ممکنہ امیدواروں کے نام عوامی حلقوں میں زیربحث ہیں تاہم ابھی تک متعلقہ سیاسی جماعتوں کی اعلی سطی قیادت یا ذمہ دار عہدیداروں کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے متوقع امیدواروں کے نام ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں تاہم تحصیل ناظم کلرسیداں کے حوالے سے عوامی حلقوں کی نظر میں تحصیل ناظم کی نشست پر تحریک انصاف کیجانب سے راجہ سہیل اشرف کو بطور ایک اعتدال پسند‘غیر متنازعہ اور ایک مضبوط سیاسی امیدوار کے طور پر دیکھاجارہا ہے جبکہ مسلم لیگ نون سے چیئرمین یوسی بشندوٹ راجہ زبیر کیانی کا نام سر فہرست ہے کیونکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابقہ ایم پی اے راجہ قمراسلام سیاسی اعتبار سے بطور امیدوار تحصیل ناظم کے طور پر راجہ زبیر کیانی کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھتے ہیں اور بظاہر راجہ زبیر کیانی بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پارٹی کارکنان کو مقامی سطح پر متحرک رکھنے میں خاصے سرگرم ہیں بلکہ عوام کے دکھ درد میں شرکت کیوجہ سے انہیں دیگر ساستدانوں کی نسبت عوام میں زیادہ مقبولیت حاصل ہے یاد رہے کچھ عرصہ قبل راجہ زبیر کیانی اور یوسی بشندوٹ مسلم لیگ ن کے صدر چوہدری محمد حنیف کی کوششوں اور انکی سیاسی حکمت عملی سے نندنہ جٹال کے رہائشی اور مسلم لیگ ق کے سابق تحصیلی عہدیدار راجہ محمد اخلاق کو مسلم لیگ ن میں شمولیت کیلیے قائل کرلیا تھا جو اب باضابطہ طور پر مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکے ہیں اس موقعہ پر مسلم لیگ کے رہنما چوہدری محمد حنیف کا پنڈی پوسٹ سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ جوں جوں بلدیاتی انتخابات کا وقت قریب آتا جائے گا مسلم لیگ ن کی مقامی سیاسی قیادت سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے خاصی متحرک نظر آئے گی انکا مزید کہنا تھا کہ بہت سے مقامی دھڑے اور سیاسی شخصیات مسلم لیگ ن میں شمولیت کے لیے ان سے مسلسل رابطے میں ہیں جس سے مسلم لیگ ن آمدہ بلدیاتی انتخابات میں بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرے گی دوسری طرف سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان بدھ کے دن ساگری تشریف لائے تھے جہاں انہوں نے گھکھڑ ہاؤس میں قاسم مشتاق کیانی سے ان کے بھائی عاصم مشتاق کیانی کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا تھا اس(باقی صفحہ3نمبر01) بات سے قطع نظر چوہدری نثار علی خان کے معاملات اگر بالفرض مسلم لیگ کی قیادت سے الجھے رہتے ہیں اور انکے مابین تعلقات میں خلیج برقرار رہتی ہے تو ردعمل میں چوہدری نثار علی خان سیاسی اعتبار سے مخالفین پر اپنی موجودگی ظاہر کرنے کی غرض سے آمدہ بلدیاتی انتخابات میں انکی طرف سے اپنے حامیوں پر مشتمل نئے مزاحمتی گروپ کی تشکیل کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا جس سے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو سیاسی لحاظ سے دھچکہ لگے گا دوسری طرف حکمران جماعت تحریک انصاف کی سیاسی قیادت بھی اب حرکت میں ہے اور مقامی سطح پر عوامی فلاحی منصوبوں کا آغاز کردیا گیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکمران جماعت بھی نچلی سطح پر بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں ہر صورت عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے ان آمدہ بلدیاتی انتخابات کی سب سے خاص بات یہ ہے جسے ہم سیاسی اعتبار سے مسلسل نظرانداز کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ مذہبی جماعت ٹی ایل پی جس نے انتہائی مختصر عرصے میں سخت گیر موقف رکھنے کے باوجود عوام میں خاصی مقبولیت حاصل کر لی ہے اگر آپ گزشتہ عام انتخابات کے نتائج کا بغور جائزہ لیں تو نہ صرف اس جماعت نے ملک گیر سطح پر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط اور مذہبی اور عوامی حلقوں میں اپنی حیثیت منوائی ہے بلکہ بلدیات کی سیاست میں بھی اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سابقہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی انتخابات میں ناکامی کی بڑی وجہ بھی یہی مذہبی جماعت تھی کیونکہ ٹی ایل پی میں شمولیت اختیار کرنے والے زیادہ تر کارکنان کا تعلق اس سے قبل مسلم لیگ ن کیساتھ وابستہ تھا تو آمدہ بلدیاتی انتخابات میں دوبارہ یہ جماعت پوری قوت سے سیاسی میدان میں اترے گی اور اس کے حمایت یافتہ امیدوار دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیے گلے کی ہڈی بن سکتے ہیں تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جماعت کے ملکی سیاست میں شمولیت کے حوالے قانونی دائرہ اختیار کا تعین اور اس بارے میں عدلیہ اور حکومت کا موقف کیا ہوگا تاہم ملک کے دیگر حصوں کیطرح تحصیل کلرسیداں میں بھی اس مذہبی جماعت کا ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے جس میں حالیہ عرصے میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے موجودہ حالات میں بلدیاتی نظام کی برائے نام فعالیت اور اختیارات غیر موثر ہونے کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں لہذاملکی ترقی کے لیے موثر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور نظام کی بحالی اب ناگزیر چکی ہے اس نظام کے تحت نہ صرف اختیارات اور انتظامی معاملات کی نچلی سطح پر منتقلی کی راہ ہموار ہوگی بلکہ اسکے نتیجے میں یونین کونسل اور تحصیل وضلع کی سطح پر عوامی مسائل کو حل کرنے میں بھی کافی حد تک مدد ملے گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں