لمبی تاخیر کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لئے حکومت نے سنجیدگی دکھانا شروع کر دی ہے پنجاب حکومت نے حلقہ بندیوں کے لئے آڈیشنل سیکرٹری محکمہ بلدیات اور ضلع میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل باڈیز کو
ذمہ داریاں دے کر اینہیں حلقہ بندیوں کا عمل دو ماہ میں مکمل کرنے کے احکامات جاری کر دےئے ہیں کوشش کی جائے گی کہ حلقہ بندیوں کا کام ایم این اے اور ایم پی اے کو اعتماد میں لے کر کیا جائے تا کہ معاملات عدالتوں میں جا کر التواء کا شکار نہ ہوں اور کافی اُمید کی جا رہی ہے کہ مئی میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کر کے انہیں اگست کے آخر تک مکمل کر دیا جائے کیوں کہ سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پنجاب حکومت کی سرزش ہو رہی ہے ۔ اس حوالے سے سابقہ بلدیاتی اُمیدواروں میں ایک بار پھر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے متواقع بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مندوں نے نئی صف بندیاں شروع کر دی ہیں اور حلقہ میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے خوشیوں اور غمیوں میں شرکت شروع کر دی ہے اور سابقہ پینلز بھی متحرک ہو گئے ہیں اس حوالے سے کافی زیادہ اُمید کی جا رہی ہے کہ بارہ فروری کو سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جمع کرا دے گا ۔عدلیہ کی بھر پور کوششوں کے باوجود بدیاتی اداروں کے انتخابات التواء کا شکار ہیں جس کی بناء پر افسران ان اداروں پر قابض ہو چکے ہیں اور بعض ایسے افسران بھی ہیں جن کے پاس ایک سے زاہد یونین کونسلوں کے چارج موجود ہیں جسکی وجہ سے کسی ایک یونین کے بھی مسائل ٹھیک طریقے سے حل نہیں ہو رہے ہیں گزشتہ سال جب بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا گیا تو عوام میں ہر طرف خوب جوش و خروش نظر آیا گلی محلوں میں ہر طرف رونقیں تھیں ساتھ ساتھ التواء کی خبریں بھی چلتی رہیں جن سے ان رونقوں میں کسی نہ کسی طرح کمی واقع ہو تی رہی ہے اور آخر اکر وہی ہو اجس کا خطرہ تھا الیکشن غیر معینہ وقت کیلئے رک گئے نئی حلقہ بندیاں کرنے میں بہت وقت چاہیے جس سے صاف اندازہ ہو رہا ہے تھا کہ الیکشن خوابوں تک محدود ہو جائیں گے التواء سے بلدیاتی امیدواروں کے فیس کی حد میں جمع کرائے جانے والے روپے تقریباًڈوب گئے ہیں حالانکہ گورنمنٹ کو چاہیے تھا کہ الیکشن کے التواء کے ساتھ ہی امیدواروں کی فیس بھی واپس کر دی جاتی لیکن افسوس کہ ایسا کوئی اعلان سامنے نہ آیا اس عمل سے امیدواروں کے ساتھ ساتھ عام عوام کو بھی بہت مایوسی ہوئی ہے زیادہ تر امیدواروں نے اپنے دفاتر بند کر دئیے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اب تک آس لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے عام آدمی کو افسر شاہی کے مرہون منت کر دیا گیا ہے مہنگائی اور بدامنی نے عوام کا بیڑہ غرق کر دیا ہے بلدیاتی الیکشن سے کچھ امیدیں پیدا ہو گئی تھیں کہ عوام کے مسائل بنیادی سطح پر ہی حل ہو جایا کریں گے لیکن نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر عوام کی توقعات پر پانی پھیر دیا گیا ہے ہر طرف مسائل کی بھر مار ہے بڑے لوگوں تک رسائی عام آدمی کے بس میں نہیں ہے وہاں تک تو صرف وہی لوگ الپروچ کر سکتے ہیں جواثر ورسوخ رکھتے ہیں اس کے برعکس اگر بلدیاتی نظام موجود ہو تو ہر آدمی اپنے چئیر مین یا کسی کونسلر کو اپروچ کر سکتا ہے اور کسی بھی طرح اپنا کام نکلوالیتا ہے حکومت نہ جانے کس خوف کیوجہ سے بلدیاتی الیکشن سے فرار کا راست اپنا رہی ہے حالانکہ چند ماہ قبل جس عوام نے موجودہ حکومت کو مینڈیٹ کر دیا ہے اسی عوام نے بلدیاتی نظام کے لئے بھی ووٹ ڈالتے ہیں عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں اور بنیادی سہولتیں صرف بنیادی ادارے ہی بہم پہنچا سکتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ تحصیل کلرسیداں میں اس وقت بڑے بڑے پرجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں اور شروع بھی ہیں مگر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا جن علاقوں میں کا م ہو رہے ہیں صرف انہیں جگہوں پر مسائل موجود ہیں باقی تحصیل میں کسی بھی جگہ کوئی مسائل نہیں ہیں بے شمار مسائل موجود ہیں کیوں کہ تمام کام بڑے لیول پر ہو رہے ہیں اگر بدیاتی ادارے موجود ہوں تو وہ چھوٹی سطح پر بھی ترقیاتی کام کروائیں کیوں کہ اداروں سے متعلقہ کام صرف ادارے بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں الیکشن ملتوی ہو نا حکومت کیلئے نقصان دہ ثابت ہر رہا ہے اور عوام اسے اپنا حق تلفی سمجھ رہے ہیں او ر وہ بلدیاتی امیدوار جو ن لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن کیلئے امیدوار تھے وہ بھی مسلم لیگ ن کو سنانا شروع ہو گئے ہیں اور اپنا قصور وار حکومت کو ہی سمجھ رہیں بعض امیدوار بہت زیادہ اخراجات بھی کر چکے ہیں جو ان کے کسی کام نہ آ سکے اب امیدواروں کیلئے نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ اگرو ہ عوام رابطہ مہم ختم کر دیں تو ووٹرناراض اور اگر جاری رکھیں تو ایسے اخراجات کا سامنا کر نا پڑتا ہے جن کا پتہ بھی نہیں کہ وہ کہاں پر کام آئیں گے بہت سا رے امیدوار اب بھی یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید اب بھی حکومت کو ان کی حالت پر رحم آجائے اگر بلدیاتی انتخابات کرا دئیے جائیں تو ایم این اے ایم پی اے کا بہت سا بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے حکومت کو چاہیے کہ الیکشن کا انعقاد جلد از جلد کروائے اور عوام کے ذہن میں پائے جانے والی بے چینی ختم کرے۔{jcomments on}