قرض
بیان کیا جاتا ہے کہ چند صوفیوں نے ایک بنیے سے ادھار لے لیا لیکن بروقت رقم ادا نہ کر سکے بنیا ہر روز تقاضا کرتا اور انھیں سخت سست کہتا تھاصوفیوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ
تھا کہ بنیے کی تلخ باتیں سنیں اور خاموش رہیں ایک دانشمند نے انھیں اس ذلت میں مبتلا دیکھا تو کہاکہ آج جس طرح تم لوگ بنیے کا تقاضا سنتے اور اسے ٹال دیتے ہو اگر اسی طرح اپنی خواہشوں کو ٹال دیتے تو بہتر تھاحضرت سعد یؒ نے اس حکایت میں قرض لینے کی مذمت کی ہے اور اس سے بچنے کا نہایت آسان اور عمدہ طریقہ بتایا ہے ان کا ارشاد ہے کہ جس طرح ایک مفلس شخص قرض خواہ کا تقاضا سن کرخاموش رہتا ہے اور اس کی تلخ باتوں کو بھی برداشت کرتا ہے اسی طرح اگر وہ اپنے نفس کے تقاضے پر خاموش رہے اور نفس کی ترغیب کا شکار نہ ہو تو ہر طرح کی ذلت سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔