165

حوا کی بیٹاں موت کی بھینٹ چڑھنے لگیں

عبدالستار نیازی‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
بزرگوں سے سنا ہے جب وقت سے برکت اُٹھ جائے تو وقت اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ سال کا گزرنا ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مہینہ گزر گیا اور مہینہ ایسے گزرتاہے جیسے چوبیس گھنٹے کا دن گزر جاتاہے، وقت نے ہمیں اتنا بے حس کر دیا ہے کہ اب ہماری آنکھ میں آنسو نہیں آتا، وہ چاہے غم کا ہو، خوشی کا ہو یا خوف خدا کا، ہم اس قدر پتھر دل ہوچکے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے جانور تو کیا انسان کے مرنے کا بھی صدمہ نہیں ہوتا، گزشتہ دنوں میں نے ایک تصویر دیکھی جس میں ایک گاڑی سے جانور ٹکراگیا، گاڑی تباہ ہوگئی،جانور زخمی لہولہان حالت میں سڑک پر پڑا تھا، اس تصویر کے اوپر لکھا تھا کہ انسانیت مر گئی ہے، واقعی انسانیت مر گئی ہے، جس طرح آپ انسانوں کو ریسکیو کرتے ہیں اسی طرح جانوروں کو ریسکیو کرنے کے بھی بروقت انتظامات ہونے چاہئیں، اسلام تو جانوروں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کی تلقین کرتاہے، استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا، میرا آج کا موضوع انسانیت کے شرماجانے سے متعلق ہے، زیادتی قتل کیس تو عام ہیں لیکن آئے روز جان بوجھ کر سوچے سمجھے قتل بھی اس جانب اشارہ ہیں کہ قیامت کی جانب یہ کائنات تیزی سے جارہی ہے، ہمارا ایمان ہے کہ ایک دن سب نے مرنا ہے اور قبر کے بعد حشر کا میدان لگنا ہے جہاں پر ہم سے دنیا میں گزاری گئی زندگی کے بارے میں پوچھا جائے گا، قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“۔ یہاں انسان کا تذکرہے مسلمان کا نہیں، جس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اسلام انسانیت کیلئے ہے صرف مسلمانوں کیلئے نہیں، اسلام دین فطرت ہے جس کا جابجا تذکرہ ہوتاہے لیکن کیا ہم فطری تقاضوں کو بھی بھلا نہیں بیٹھے، خبریں تین ہیں، پہلی خبر ساہنگ سے ہے جہاں پر دو گروپوں کے درمیان زمین کے تنازعہ پر گزشتہ دنوں دن دیہاڑے رمضان المبارک کے مقدس اوقات میں فائرنگ ہوئی اور ذرائع کے مطابق کئی گھنٹے تک فائرنگ ہوتی رہی اور ایک شخص جاں بحق جبکہ تین کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، واقعہ کے بعد لواحقین کا کہنا ہے کہ ہمیں تین گھنٹے تک اپنے جوان لڑکے کی لاش نہیں اُٹھانے دی گئی، کیا ملزمان اتنے ہی بااثر تھے؟ ساہنگ اور تھانہ مندرہ میں کتنی دیر سفر ہے کہ پولیس وقت پر نہ پہنچی؟ لواحقین نے سڑک بلاک کی، ڈی ایس پی کے مذاکرات کے بعد سڑک کھول دی گئی، زمین وہیں کی وہیں موجود ہے، نہ مرنے والا ساتھ لے کر گیا اور نہ ہی جو پیچھے زندہ رہ گئے ہیں انہوں نے ساتھ لے کر جانی ہے، ہم رشتوں کا تقدس بھول چکے ہیں، خاتم النبین نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا ”مسلمان کی جان کی حرمت خدا کے گھر کعبہ سے افضل ہے“ تو کیا ہم اس افضیلت سے انکار کر چکے ہیں؟ ہمارے اعمال کی ہمیں سزا مل رہی ہے، ہماری شکلیں نہیں بگڑتیں لیکن باقی ہمارے ساتھ سب کچھ ہورہاہے، کیا ہمیں اپنے اعمال کی جانب توجہ نہیں کرنی چاہیے؟

دوسری خبر تھانہ مندرہ کے علاقہ وصلہ بنگیال سے ہی ہے جہاں گزشتہ روز یعنی بدھ کے دن بھائی نے اپنی اٹھارہ سالہ بہن کو گولی مار کر قتل کر دیا،ذرائع کے مطابق پہلے تو معاملہ دبانے کی کوشش کی گئی لیکن خاندانی افراد کے ملوث ہوجانے پر والد نے اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ درج کرادیا، اب والد اپنے حقیقی بیٹے سے اپنی حقیقی بیٹی کا بدلہ لے گا؟ یہ پاکستان میں ناممکن سی بات ہے، بیٹا گرفتار ہو گا، ضمانت ہوگی، والد تحریر لکھ کر دے دے گا کہ میرا بیٹا ہے میں نے اسے معاف کیا اسے مقدمہ سے بری کیاجائے اور پھر وہ بری ہوجائے گا، کیا اسی طرح چلتا رہے گا؟ اس ملک کا نظام کب درست ہوگا؟ تیسری خبر تھانہ گوجرخان کے علاقہ بھاگپور گجراں سے ملی جہاں پر گزشتہ روز یعنی بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تقریبا ساڑھے تین بجے خاوند نے گھریلو ناچاقی کے باعث اپنی بیوی کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا، مقتولہ اپنے والدین کے گھر ناراض ہوکر رہ رہی تھی، مقتولہ کے والد کے بیان کے مطابق مقتولہ 2/3 ماہ کی حاملہ تھی، ایک نہیں دو قتل کئے گئے، مقتولہ کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوگیالیکن مدعی کو یہ نظام اس قدر ذلیل کرتاہے کہ بالآخر راضی نامہ کرنا پڑتا ہے اور کیس پر خرچ شدہ رقم وصول کرکے مدعی گھر بیٹھ جاتے ہیں، پولیس کے تفتیشی افسر ملزم سے کم اور مدعی سے زیادہ رقم بٹورتے ہیں، مجھے معلوم ہواہے کہ اس طرح کے قتل کیس جس تفتیشی کے پاس تفتیش کیلئے جاتے ہیں وہ ٹھیک ٹھاک دیہاڑیاں لگا رہا ہے، گوجرخان تھانے کے ”مخصوص شعبہ“ میں عرصہ دراز سے تعینات ہے لیکن اس کے خلاف کوئی بولتا نہیں، کوئی لکھتا نہیں، شاید مال پانی پہنچ جاتا ہے ”لکھاریوں“ کے پاس؟ لیکن میں لکھوں گا اور ڈنکے کی چوٹ پر لکھوں گا کیونکہ میں ہردور کے یزید اور اس کے پیروکار پر لعنت کرنے کی جرات رکھتاہوں، بہرحال جب تک نظام تبدیل نہیں ہوگا اصلاحات نہیں ہوں گی تو آپ اور میں روتے پیٹتے رہیں گے، مدعی اسی طرح ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے اور قاتل دندناتے پھرتے رہیں گے، میری ہر تحریر میں نظام میں اصلاحات کی بات ہوتی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ بڑے چوروں کی طرح چھوٹے چوروں، قاتلوں، اجرتی قاتلوں، ڈکیتوں، راہزنوں اور پولیس کی وردی میں ملبوس”آٹے میں نمک کے برابر ڈکیتوں“ کو لگام ڈالنے کیلئے بھی یہ حکومت کسی سمت کا تعین کرے گی، اگر نہیں کرے گی تو پھر یہ حکومت زیادہ دیر ٹھہر نہیں پائے گی، اپنا، اپنے پیاروں اور اپنے ملک کا خیال رکھیے۔ والسلام

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں