290

حلقہ پی پی 7کی سیاست‘راجہ ظفر الحق نظرانداز

حلقہ پی پی سیون کے ضمنی الیکشن کا ڈراپ سین ہو گیا ٹوٹل چھ امیدواران تھے اصل مقابلہ پی ڈی ایم کے امیدوار راجہ صغیر احمد اور پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل شبیر اعوان میں تھا دو بڑی جماعتوں کے اقتدار کا میلہ تھا ضلع راولپنڈی کی اس سب سے بڑی اور پرانی ایٹمی تحصیل کا ہمیشہ یہ مقدر رہا کہ یہاں مفاداتی اور برادری ازم کی سیاست چلتی رہی اور اس علاقے کے عوام نے ہمیشہ میرٹ پر فیصلہ نہیں کیا الیکشن کے دوران سبز باغ دکھانے والوں اور 7 سالوں سے دھوکہ کرنے والے ہمیشہ کامیاب رہے اور ہر بار وہی چہرے جن پر ہم الزام لگاتے رہے وہی کامیاب ہوئے قرآن مجید میں واضع لکھا ہے کہ جیسے لوگ ہوں گے ویسے حکمران آئیں گے دو چار ہزار روپے میں گلی نالی کی وجہ سے اپنے ضمیروں کا سودا کر لیتے ہیں خیر اگر ہمارا اقتدار ایسا ہی ہے تو شکوہ کیا ہم پارٹیوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں مگر وہ اپنے اقتدار ذاتی مفاد کی خاطر چالیس پچاس سالہ وابستگی قربانیوں کو سائڈ پر رکھ کر ان ضمیر فروشوں کرپٹ لوگوں کو ٹکٹ دے دیتے ہیں جنہوں نے ان کی اقتدار کی ہوس کی خاطر ضمیر کا سودا کیا میں سمجھتاہوں کہ ہر پارٹی میں یہی کچھ ہے چاہے وہ پی ٹی آئی ہو یا ن لیگ یا پی پی پی اپنے مفاد کے لیے سب اگھٹے جبکہ غریب عوام آپس میں لڑتے رہتے ہیں خیر حلقہ پی پی سیون میں کانٹے دار مقابلہ ہوا سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت سب نے بڑا زور لگایا

مسلم لیگ ن نے ضمنی الیکشن میں ٹکٹ دینے سے قبل مشاورت تک نہ کی

پی پی پی نے بھی اس دفعہ راجہ صغیر احمد کا بہت ساتھ دیا مہرین انور راجہ آصف ربانی قریشی چوہدری ظہیر اور دیگر نے بھر پور مہم چلائی اور آخر دم تک ساتھ رہے اور راجہ صغیر کی کامیابی میں ان کا بڑا ہاتھ ہے جبکہ کرنل شبیر اعوان جو کہ ایک مضبوط امیدوار تھے اور ٹکٹ کے حوالے سے اختلافات کے باوجود صداقت عباسی راجہ طارق محمود مرتضیٰ اور ان کی ٹیم نے ان کا بھرپور ساتھ دیا سابقہ ایم این اے غلام مرتضیٰ ستی راجہ خورشید ستی اور دیگر سرکردہ لوگ بھی شریک رہے اور خاص کر ستی برادری کا رزلٹ نکالنے میں کامیاب رہے عمران خان، علی محمد خان، بابر اعوان اور دیگر سرکردہ شخصیات نے بھر پور مہم چلائی اسی دوران مسلم لیگ ن کے جلسوں میں راجہ صغیر احمد ناراض ہو کر دوسری چھت پر بھی بیٹھے رہے ان کے جلسوں میں سابق چئیرمین بلدیہ کلر شیخ عبدالقدوس تقریر کرنے کے فوراً بعد اچانک دم توڑ گئے ایک اور جلسے میں راجہ صغیر احمد کے قریبی عزیز بھی وفات پا گئے مگر زندہ رہنے والوں نے اس عارضی اقتدار کی خاطر سب کچھ کیا پہلی دفعہ پی پی سیون میں غیر اخلاقی گفتگو کی گئی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیری گئی کرنل شبیر اعوان کی برتری آخری وقت تک جاری رہی اور آخر میں رزلٹ روک دیئے گئے ایک پولنگ سٹیشن کے رزلٹ سے قبل بھی کرنل شبیر اعوان 3 سو سے زائد ووٹوں سے جیت رہے تھے مگر سوال عزت اور بے عزتی کا تھا اس لیے رات کی تاریکی میں 49 ووٹ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو کامیاب کیا گیا خیر وہ کامیاب ہوئے مگر قانونی حقوق سب کو ملنے چاہیے کرنل شبیر اعوان نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی جو آر او نے مسترد کر دی پھر عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا مگر انہوں نے بھی ان کی درخواست مسترد کردی ہار جیت الیکشن کا حصہ ہے مگر جو حقوق ہیں یا الیکشن کو تنازع بنانے سے جو اقدامات ہیں وہ الیکشن کمیشن کو کرنے چاہیے بہرحال جس طرح بھی ہوا الیکشن ہو گئے پی ٹی آئی والے مزید آگے عدالت کا دروازہ کھٹکائیں گے یا خاموشی اختیار کریں گے

عوام کو فرسودہ نظام سے چھٹکارے کیلئے ووٹ کا استعمال درست کرنا چاہیے

حلقہ پی پی سات میں چئیرمین مسلم لیگ ن راجہ محمد ظفر الحق سابق ایم این اے راجہ محمد علی کو نہ کسی نے حمایت کے لیے کہا اور نہ ہی انہوں نے کھل کر راجہ صغیر احمد کی حمایت کی اس الیکشن میں راجہ محمد علی گروپ کی تمام سرکردہ شخصیات جن میں راجہ فیاض راجہ شوکت ڈاکٹر محمد عارف قریشی شامل ہیں انہوں نے بھی راجہ صغیر احمد کی حمایت کی جبکہ راجہ ستار اللہ ایڈووکیٹ نے بھی کھل کر کرنل شبیر اعوان کی حمایت کی ہے مسلم لیگ ن کی ضمنی الیکشن میں ناکامی کی بڑی وجہ اپنے کو قربانی دینے والوں کو چھوڑ کر لوگوں کو ٹکٹ دینا ہے چئیرمین مسلم لیگ ن راجہ محمد ظفر الحق جنہوں نے امریت کے دور پارٹی سے وفا کی وزیر اعظم کی سیٹ کو ٹھکرایا ہمیشہ شرافت کی سیاست کو فروغ دیا مگر آج کل کی سیاست میں شاہد ایسے لوگوں کی جگہ نہیں سیاست کا کلچر تبدیل ہو گیا ہے مگر الیکشن میں جس طرح راجہ محمد ظفر الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا سابقہ عسکری قیادت کو برا بھلا کہا گیا اس سب قبل شاہد ایسا نہ ہوا ہو وقت بدلتا رہتا ہے وہی عسکری قوتیں گزشتہ الیکشن میں راجہ ظفر الحق کے ساتھ تھیں جماعت اسلامی تمام سیاسی پارٹیوں سے جمہوریت کے حوالے سے صاف شفاف قیادت کی وجہ سے سر فہرست ہے راجہ تنویر احمد نے بھی دوسری مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا جماعت اسلامی جو بظاہر ایک منظم جماعت ہے اور اس کے کارکن ورکر بھی پکے ہوتے ہیں مگر ضمنی الیکشن میں جماعت اسلامی کے ورکروں کارکنوں نے بھی مایوس کیا اور رزلٹ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا شاید عوام کے مقدر میں صاف شفاف قیادت نہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے نوجوان نسل چوری ڈکیتی منشیات فروشی کے دھندوں میں مصروف ہے اسی طرح دیگر دینی جماعت کے امیدوار خافظ منصور بھی متوقع نتائج حاصل نہ کر سکے بات کی جائے آزاد امیدوار کی الیکشن سے قبل لوگوں کی خواہش تھی کہ جب تک کہوٹہ شہر سے امیدوار نہیں ہو گا اس وقت تک مسائل حل نہیں ہوں گے اس مرتبہ کرنل وسیم جنجوعہ میدان میں آئے کم وقت میں آئے مگر انہوں نے انتہائی منظم طریقے سے مہم چلائی اور ہر جگہ عوام نے ان کو پذیرائی بھی دی مگر ان کو بھی الیکشن میں مطلوبہ رزلٹ نہ مل سکا عوام ووٹ کا حق صحیح طریقے سے استعمال نہیں کریں گے اور پانچ سال لے کر عوام کو 76 سالوں کی طرح سبز باغ دکھا کر اپنے اقتدار اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے خدا کرے عوام کی سوچ میں تبدیلی آئے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں