204

حقیقی انقلاب/پروفیسر محمد حسین

پروفیسر محمد حسین

آج ہر طرف انقلاب کے آواز ے بلند ہو رہے ہیں ہر شخص خصوصا نوجوان طبقہ تبدیلی کے لیے عجیب و غریب طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کے درپے ہیں تاریخ عالم میں مختلف ادوار مختلف طرح کے انقلابات میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا نظریاتی سیاسی اور مذہبی مخالفوں کی نسل کشی کی گئی اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا ستم بالا ئے ستم یہ کہ مقتولین کی کھوپڑیوں کے مینار بنادئیے گئے ہلاکو خان اور چنگیز خان نے مخالفوں کے قتل عام کے حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل کی اور ظلم و بربریت کی علامت بن گے سقوط بغداد کے موقع پر کئی کتب خانوں کو جلا دیاگیا اور کئی ایک کو دریائے دجلہ میں بہادیا گیا انسانوں کے قتل عام سے بغداد کی سرزمین لہو رنگ ہو گئی اکثر انقلابات میں تشدد اور انتقام کا عنصر غالب رہا اور انسانوں کو جبرا مثبت یا منفی تبدیلی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا مخالف نظریات کو غیر انسانی اور غیر منطقی نظریات قرار دے کر حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا گیا پاکستان کے قیام کے لیے بھی برصغیر کے طول و عرض میں بڑی تعداد میں تاریخی قربانیاں دی گئیں بچے یتیم ہوئے بہنوں ،بیٹیوں کے سہاگ اجڑے ماوں کی گودیں خالی ہوگئیں گھرویران ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی اس ساری جدوجہد کا مقصد ایک اسلامی ،فلاحی ریاست کاقیام تھا لیکن افسوس کے اکہتر برس بیت جانے کے باوجود عوام کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اگرچہ مختلف ادوار میں عوام پر امن اورپر تشدد تحریکوں کا ساتھ اس لیے دیتے رہے کہ ان عقائد اور نظریات پر عمل پیرائی کا رستہ ہموار ہو سکے اوران کے حقوق کے تحفظ کویقینی بنایا جاسکے مگر یہ حقیقت ہے کہ اکثر انقلابات کو ہائی جیک کر لیا گیا اور عوام کی تمناوں کا خون ہوتا رہا 1977میں قومی اتحاد کی تحریک میں عوام الناس نے نظام مصطفی کی حمایت میں آواز اٹھائی لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس موثر ترین تحریک کے نتیجے میں ملک میں آمریت مسلط ہو گئی اکثر تحریکوں کے بعد کوئی نہ کوئی مفاد پرست طبقہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے اور عوام بیچارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں انسانی تاریخ کاواحد موثر اور ہمہ گیر انقلاب نبی پاک ؐ ا انقلاب تھا جس نے عقائد سے لے کر اعمال تک اور افکار سے لے کر طرز زندگی تک ہر شعبہ زندگی کو یکسر تبدیل کر دیا عرب کا معاشرہ غیر اللہ کی پوجا اور پرستش کرنے والا تھا لوگ شجر و حجر ستارے اورفطرت کے سامنے سجدہ ریز ہوا کرتے تھے نبی کریمؐ نے لوگوں کو غیر اللہ کی پرستش سے ہٹا کر ایک اللہ کے آستانے پر جھکنے کا درس دیا عرب کے معاشرے میں عورت کو حقیر سمجھ کر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا نبی کریم ؐ نے عورت کو ہر اعتبار سے بلند فرمادیا ماں کی حیثیت سے اس کے قدموں تلے جنت کو قرار دیا بہن بیٹی کی حیثیت سے اس کو انسان کی غیرت بنا دیا بیوی کی حیثیت سے اس کو شریک زندگی بنا دیا نبی کریم ؐ نے وراثت میں عورت کا حصہ مقرر کیا اور اس کی جبری شادی کوخلاف شریعت قرار دیدیا عرب کے سماج میں لوگ شراب کے نشے میں دھت رہا کرتے تھے شراب کے خوگر لوگوں کو رسول پاکؐ نے اس طرح شراب سے دور فرمادیا کہ اہل عرب نے شراب ہی سے لاتعلقی اختیار ہی نہیں کی بلکہ ان پیمانوں کو بھی توڑ ڈالاجن میں شراب پیا کرتے تھے نبی کریم ؐ کی تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ عورتوں کی عزتوں کو لوٹنے والوں نے عورتوں کو میلی نظر سے دیکھنا بھی ترک کر دیا اور اپنی ہی قوم کی بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کرنے والے غیروں کی بیٹیوں کی آبرو کے بھی رکھوا لے بن گئے عرب کے لوگ خود غرضی انانیت اور خود پسندی کا شکا ر تھے تعلیمات نبوی اور رسول ؐ اللہ کی محبت کاملہ نے ان کو عاجزاور ایثارپسند بنا دیا نبی کریم ؐ کی مدینہ آمد کے موقع پر اہل مدینہ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والوں کے لیے اپنے گھر بار پیش کر دئیے رسول ؐ اللہ کی آمد سے قبل انصاف طبقاتی اعتبار سے کیا جاتا تھا امیر اور غریب طبقوں میں انصاف کے حوالے سے فرق برتا جاتا تھا نبی کریم ؐ نے انصاف کے معیار کو اتنا بلند فرمایا کہ آپؐ نے اعلان فرمادیا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو میں ا س کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا نبی کریم ؐ کے اس ہمہ گیر انقلاب سے پورے جزیرہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا نبی پاک ؐ یہ انقلاب اتنا پر اثر تھا کہ آپؐ کی رحلت کے چند برس بعد ہی آپؐ کی انقلابی دعوت نے دو بڑی طاقتوں روم اور ایران کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اگر انقلاب لینے والا لیڈر راست باز مخلص اور پرعزم ہو تو انقلاب کے اثرات محدود نہیں ہوتے بلکہ پھیلتے چلے جاتے ہیں اس کے برعکس اگر انقلاب کے نعرے لگانے والوں کے مقاصد اور ا ہداف محدود اور مفادات پر مبنی ہوں تو انقلاب اپنی موت آپ مرجاتا ہے اس انقلاب کی ایک ابھرتی ہوئی خصوصیت یہ ہے کہ حضور پاک ؐ نے اپنے ملک اپنی قوم اپنے قبیلے اپنے خاندان کے مفاد کو بنی نوع انسان کے مفاد پر ترجیح نہیں دی آپؐ ہر قسم کی کنبہ پروری اور اقربا ء نوازی سے برتر رہے اسی بات نے دنیا والوں کو یقین دلایا کہ آپ تما م اقوام کے لیے سراپا رحمت بن کرآئے ہیں اس وجہ سے اپ
ؐ کی آواز پر ہر قسم کے انسانوں نے لبیک کہا اگر آپ ؐ اپنے گھرانے کی بر تری کے لیے کام کرتے تو غیر ہاشمیوں کو کیا پڑی تھی کہ آپ ؐ کا ساتھ دیتے ؟اہل پاکستان کئی عشروں سے تحریکوں کو دیکھ رہے ہیں اور تبدیلی کے نعروں کو سن رہے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ پاکستان کے مسائل تاحال حل نہیں ہو سکے حقیقی تبدیلی کے لیے ہمیں اپنے پیغمبر ؐ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی اور ان کے اس انقلاب کے خدوخال کو سمجھنا ہو گا کہ جس نے چند برسوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا وقت کا اہم تقاضا یہ ہے کہ اس ملک میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ہم اپنا مال اپنا وقت اپنی توانائی اپنی تمام صلاحیتوں کو کھپا دیں نتائج کو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں انقلاب کے شیدائی اپنے لیڈروں کی باتوں اوران کے طرز زندگی کو دیکھ لیں اگر ان کا طرز زندگی ان کے دعووں سے مختلف ہے تو وہ جھوٹے ہیں انکے بیانات میں نہ آئیں وہ سبز باغ دکھا کر اپنا الو سیدھا کریں گے اور قوم کو اندھیروں میں ڈبو دیں گے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں