58

حضرت مولانا اسماعیل ذبیح راجوروی ؒ

ہم مہمان نہیں رونق محفل تھے
مدتوں یاد رکھو گے کے کوئی آیا تھا
گوجری ادب کی سیف الملوک شاعری مجموعہ”انتظار“

عظیم محقق،شاعر،ادیب سماجی رہنماء تحریک حریت کشمیر کے جرنیل‘عالمی محبت کا شاعر کئی صفات اس شخصیت میں جمع ہیں گوجری سمیت عربی،فارسی، پنجاپی میں بھی شعر کہتے تھے کمال کے نثر نگار تھے کچھ اہم علمی موضوعات پہ ایسا لکھا جو بطور حوالہ عدالتوں میں آج بھی نقل ہوتے ہیں۔


حضرت سے ہمارا کئی نسبتوں سے تعلق ہے اولا نسبا ثانیا وطنا حضرت ؒ کے اجداد کا وطن اصلی جہاں سے کشمیر ہجرت کر گے وہ بالاکوٹ ہزارہ کی نواحی بستی پتلنگ جو ایک وقت میں علم کا مرکز رہی ہے جہاں مشائخ خانوادہ جمالیہ کے ہاں خانوادہ کاشمیری بھی کئی عرصہ رہا ہے۔


حضرت مولانا عبد اللہ چیچی کے ہاں 8 اگست 1914 کو پیدا ہوئے ایک علمی خانوادہ میں آنکھ کھولی چوہدری حفیظ صاحب نے کتاب کے شروع میں جس حسرت کا ذکر کیا وہ قابل رشک ہے یہ بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا اس حسرت کو کسی حد تک آپ نے ہماری نظر میں پورا کرنے کی ٹھان لی ہے رب ذیبح دستگیری فرمائی۔


حضرت پہ لکھنے کا ارادہ کرتا ہوں تو کی پہلو انگرائی لیتے ہیں مگر آج حضرت کی کاوش گوجری ادبی سرمایہ ”انتظار“۔
ہمارا موضوع ہے حضرت کا اسلوب جدید گوجری ادب جس کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا اس ادب کی تاریخ و ارتقاء میں یہ شخصیت بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی۔”ادارہ ادبیات گوجری“ کا یہ کارنامہ جو آج بھی گوجری ادب کا حوالہ ہے پہلا مطبوعہ رسالہ ہے ریڈیو سے پروگرام کا آغاز بھی ان ہی شخصیات کے مرہون منت ہے۔


ہم اہلِ دل ہیں مُحبت کی نِسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں __!!
ڈاکٹر آفاقی صاحب کا اقتباس نقل کروں گا۔انتظار میں شامل سب ہی تخلیقات ان کے جذبہ رافت و محبت کی آئینہ دار ہیں۔ان کے تمام اصناف سخن میں وہی سوز و گداز وہی نرمی ملتی ہے جو بڑی شاعری کا امتیاز سمجھی جاتی ہے۔مکان ومکیں دونوں کا تذکرہ ان کی شاعری میں ملتا ہے،وہ جہاں وطن کی جدائی میں گریہ کناں ہیں وہاں اہل وطن کی پس ماندگی پر بھی آنسو بہاتے ہیں،ذبیح راجوروی پیر پنجال کے دیودار کی طرح۔ تنہا اور گھمبیر بھی ہے بلند و ہرسکون بھی اور پر وقار و سدا بہار بھی۔


انتظار کتاب کو وہی مقام گوجری ادب میں حاصل ہے جو پنجابی و پہاڑی میں زبان و رومی کشمیر حضرت میاں محمد بخش ؒ کی تصنیف سیف الملوک کو حاصل ہے۔میں نے اس شخصیت پہ کچھ تبصرہ کے لیے ان ہی کے ہمعصر کے اقتباس و تاثرات کا سہارا لیا ہے والد محترم میاں میرافضل جلالی حفظ اللہ کو بھی حضرت سے قربت رہی قرآن کریم کے ترجمہ کے سے بھی کام کیا تھا جو ہجرت کی بناء ادھورا رہا اور کء پہلو ہیں جن پہ مستقل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔


شخصیات دنیا سے چلی جاتی ہیں مگر کردار زندہ رہتا ہے آج ان کی وفات کے کئی برس بعد ہم رات کے اس پہر اس عظیم حریت پسند عالم کے بارے میں لکھ رہے ہیں دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں وہ ہی دلوں میں ایسی شخصیات کی محبت انڈیل دیتا ہے

یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے یہ مختصر خراج بطور طالب علم ادب پیش کرنا ضروری تھا اس کے محرک حضرت کے صاحبزادے ادب دوست شخصیت سابق صدارتی مشیر عبدالحفیظ چوھدری صاحب بنے اور حضرت کے دوسرے صاحبزادے پروفیسر طاہر فاروق حفظ اللہ جس نے اہتمام کیا اور یہ شرف بھی مکتبہ جمال کو نصیب ہوا جو منسوب ہے

حضرت میاں جمال ولی کنہاروی رح سے۔
ہم انتظار کے بعد مزید بھی منتظر ہیں حضرت کی نایاب کتب بالخصوص ”یتیم پوتے کی وراثت“ اور قتل مرتد بھی اسی طرح منظر عام پہ آئی اور حضرت سے منسوب کوئی ایسا ادارہ کوئی لائبریری بھی ہو جو آنے والی نسلوں کو ایسی تحریکی شخصیات کا تعارف دیں اسلاف شناسی ہو سکے ہم نے اس حوالے سے خصوصی پروگرام بھی ریڈیو پاکستان سے کیا تھا بلکہ حضرت کا ہی شروع کردہ پروگرام کی رسم کو ہم نبھانے کی کوشش میں ہیں۔


آسمان تیری لحد پہ شبنم فشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں