پروفیسر محمد حسین /اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس دن لوگ جدا جدا ہو کر نکل پڑیں گے تاکہ اپنے اعمال دیکھیں لیکن جو ایک ذرہ برابر اچھا عمل کرے گا تو اسی کے مطابق اس کا اچھاصلہ پائے گا اور جو ایک ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کے مطابق ہی برا صلہ پائے گا یہ عارضی دنیا زمان و مکان میں ایک عارضی منزل ہے اسی طرح عالم برزخ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بلکہ برزخ کا زمانہ روز قیامت تک ہے قیامت کے مرحلہ کے بعد یوم حشر ہو گا جس میں موجودہ کائنات کے تمام انسانوں کے نفوس کو جمع کیا جائے گا وہاں انھیں نئے جسم دے کر زندہ کیا جائے گا اور پہلی زندگی کا حساب کتاب ہو گا اب اصل جزا و سزا کا دور شروع ہو گا اپنے اپنے اعمال کی جزا کے مطابق نیکوں کے لیے راحت اور بروں کے لیے سزا حسرتوں اور مایوسیوں کا دور ہو گا اور اسی کے مطابق نئی کائنات میں ان کی جگہ اور مقام کا فیصلہ ہو گا نئی کائنات موجودہ کائنات کی نسبت انتہائی بڑی ہو گی جس میں تین الگ الگ دنیائیں جنت اعراف اور جہنم ہوں گی وہ نفوس جو اپنے خالق سے مطمئن ہیں ان کی اگلی منزل جنت ہو گی جہاں کوئی خوف ہو گا نہ غم یہ تمناوں کی تکمیل کا مقام ہے اور اطمینان قلب کا خزینہ ہے نئی کائنات میں جنتی زندگی کے برعکس جہنمی زندگی ہے جہنم میں تیز اور جھلستی ہوئی آگ ہو گی یہ ان نفوس کا مقام ہو گی جنھوں نے دنیا میں اپنے آپ کو خر اب کر لیا تھا ان دو حالتوں یعنی جنت اور جہنم کے درمیان ایک درمیانی قسم کی جگہ بھی ہے جہاں جنت میں اپنے آپ کو خراب کر لیا تھا ان دو حالتوں یعنی جنت اور جہنم کے درمیان ایک درمیانی قسم کی جگہ بھی ہے جہاں جنت میں دخول سے پہلے کچھ تیاری کے مراحل طے ہوتے ہیں اس مقام کو اعراف کہا جاتا ہے اس اعراف والی جگہ پر لوگ جہنم کے درد اور جنت کے امن دونوں حالتوں کو بیک وقت محسوس کر سکیں گے ہر جہنمی کی شدید خواہش ہو گی کہ کاش وہ اعراف تک پہنچ پائے اور ہر ایک اعراف والے کی سب سے بڑی تمنا ہو گی کہ کاش وہ جنت میں داخل ہو جائے اعراف تک پہنچنے کا راستہ جہنم کے اوپر سے گزرتا ہے جسے پل صراط کہا جاتا ہے جنتی اس راستے کو بجلی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے طے کر لیں گے لیکن بدقسمت اپنے گناہوں کے بوجھ سے یہ راستہ لاکھوں کروڑوں سالوں میں طے کریں گے اور یوں جہنم کی آگ سے جھلستے رہیں گے وہ جن کے سرپرگناہوں کا بہت بوجھ ہو گا وہ جہنم میں گر جائیں گے اور اپنے اپنے درجہ پر پہنچ کر رک جائیں گے جنت کی زندگی بھرپور اعمال والی اور با مقصد زندگی ہے انسان جو خواہش رکھتا ہے وہ پوری ہو گی اس دنیا میں تو اکثر اوقات مایوسیاں ہیں جبکہ اس دنیا میں زندگی حسرت ویاس او ر رنج والم سے آزاد ہو گی ہمارے آقا حضرت محمد ؐ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں اطمینان کا منبع اللہ کا نور ہو گا ہر انسان کی یہی خواہش ہو گی کہ وہ اس کے قریب تر ہو اور یوں بہتر سے بہترین کی جستجو کا جذبہ ہمیشہ انسان کے ساتھ رہے گا نچلے درجے والے اوپر کے درجے کی خواہش رکھتے ہوں گے لیکن وہاں بے انصافی حسد رقابت اور دشمن نہ ہو گی آپس میں محبت باہمی امن وہاں کی بڑی نعمتیں ہیں خواہشات اور تمنائیں وہاں بھی ہوں گی لیکن انسان جو چاہے گا اس کو اس سے بہت زیادہ ملے گا اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کی حمد اور تقدیس اس کی شان کا ادراک حاصل کرنا قرآن پاک کی تلاوت اور اس کے مضامین پر غوروفکر جنتیوں کا محبوب مشغلہ ہو گا جنتیوں کی تمنا ہو گی کہ وہ اپنے محبوب رب کی آیات کو بہتر سے بہتر طور پر سمجھیں اس لیے اپنے خالق اور مالک کی تخلیقات پر غورو فکر جنتیوں کا ایک محبوب مشغلہ ہوگا وہ آپس میں بھی ایسے ہی مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے نظر آئیں گے کہ ہمارے رب نے کیا کیا بنایا ہے اور کیسے کیسے بنایا ہے ان کی شدید خواہش ہو گی کہ وہ چیزوں کی حقیقت تک پہنچیں حقیقت تک پہنچنے کے لیے نہایت باعث اطمینان ہو گا اور جنت حقائق تک پہنچنے کی جگہ ہے وہاں انسان کے علم کی کوئی حد نہیں اور علم کے لیے یہ جدوجہد کبھی نہ ختم ہونے والی ہو گی وہ نفوس جو دنیا کو چھوڑتے وقت اعلیٰ علمی مراتب پر فائز ہیں وہ وہاں بھی اعلیٰ مراتب پرہوں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بے شک جو جانتا ہے اور جو نہیں جانتا ہے آپس میں برابر نہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام میں علم کے حصول پر بڑا زور دیا ہے اور حضور پاک کا ارشاد ہے کہ عالم کے علم کی روشنائی شہید کے خون سے افضل ہے پھر آپ ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات پر غورو فکر میں گزری ہوئی رات عمر بھر کے نوافل سے افضل ہے جنت کا یہ ماتم ہے کہ وہاں پرعارضی دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیزیں بھی انتہائی بے وقعت ہوں گی وہاں انسان کو دنیاوی حیات کے وقت کی قدر معلوم ہو گی اور وہ افسوس کرے گا کہ اے کاش اس نے دنیا جیسی عارضی اور فضول چیز کو اپنا مقدم بنا کر زندگی کے انتہائی قیمتی لمحات کو ضائع نہ کیا ہوتا جب وہ دیکھے گا کہ دنیا میں کی گئی ایک ایک نیکی وہاں کے کروڑوں سالوں کے اطمینان کا باعث ہے تو وہ وخواہش کرے گا کہ اے کاش وہ دوبارہ دنیا کی زندگی کو پاسکتا اور اس کے ایک ایک لمحہ سے فائدہ اٹھاتا اس کے برعکس دوزخیوں کا احساس محرومی انتہائی شدید ہو گا ان کے بد اعمال مختلف عذابوں کی شکل میں ان کے سامنے آتے رہیں گے وہ اللہ تعالیٰ سے دنیاوی زندگی کی التجائیں کریں گے تاکہ وہ اپنی بد اعمالی کاازالہ کر سکیں لیکن اب یہ ناممکن ہو گا قیامت کا اوجع کمال حشر کا دن ہے جس سے اگلی منزل یوم الحساب ہے یوم حشر کا باقاعدہ اعلان ہو گا اس اعلان پر نفوس اپنی برزخی زندگی سے اٹھ کرمحشر کے میدان کی طرف لپکتے آئیں گے صور کے بجنے کے ساتھ ہی عالم برزخ کا دور ختم ہو جائے گا ہر زمان و مکان سے لوگ محشر کی طرف دوڑ پڑیں گے یہ سب کے لیے گھبراہٹ کا وقت ہو گا سب نگاہیں اللہ کے فضل کی طرف ہو ں گی کہ آج اعمال کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ محض اللہ کی مہربانی سے بخشا جائے گا یقینا اعمال کی توفیق بھی اسی ذات عالی وقار نے ہی عطا کی تھی یوم حشر اور یوم حساب ہمارے زمان و مکان میں سفر کی اہم ترین منزل ہے
370