388

حسن نیت اور عمل

پروفیسر محمد حسین/نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور وہ ہی کہ کوئی بھی عمل حسن نیت کے بغیر قبولیت اور درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں لیکن بعد میں کسی رکاوٹ کے وہ کام نہ کر سکیں توپھر بھی ہمیں اس نیک کا م کا اجر مل جائے گا۔نیت خود ایک مطلوب عمل ہے اور یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاء کے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول پاک ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ”اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کرلے لیکن کسی مجبوری کے باعث وہ کام نہ کر سکے تب بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کر لے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جائے گا“ ارشاد فرمایا کہ ”جوکوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لئے اس جیسی دس نیکیاں ہیں“یہ نیکی کا کم سے کم اجر ہے حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ”ابن آدم کو دس گنا اجر سے لے کر سات سو گنا اجر ملتا ہے“ گویا ایک ہی عمل پر کسی کو دس نیکیاں‘کسی کو سو نیکیاں‘کسی کو اس عمل پر سات سو نیکیاں اور کسی کو سات سو سے بھی زیادہ بے حساب نیکیاں ملتی ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمل تو ایک تھا مگر ہر ایک کو جدا جدا اجر وثواب کیوں ملا؟یاد رہے کہ نیکیوں اور درجات کے کم و پیش ہونے کی وجہ حسن نیت ہے۔ نیت عمل کے پیچھے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی ماند ہے نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا وہ عمل اسی قدر روشنی پا کر جگمگائے گا اور اجروثواب پائے گا۔کسی شخص کی نیت ٹمٹماتے ہوئے چراغ جیسی ہے کسی کی چاند جیسی اور کسی کی سورج جیسی ہے۔ الغرض جتنی روشنی اور نور کسی کی نیت میں ہے اسی قدر اس کے عمل کا ثواب بڑھتا جاتا ہے۔نیت کے اندر موجود خالصیت اس نیت کے نور‘قوت‘قبولیت اور درجے کے بڑھانے کا سبب ہے۔جیسی نیت ہو گی عمل کا نتیجہ میں ویسے ہی درجہ کا حصول ممکن ہوتا ہے۔صحابہ کرام ؓکی نیتوں میں اخلاص کا درجہ نہایت بلند اور کامل ہونے کی وجہ سے ہی نبی پاکؐ نے ان کے لئے فرمایا کہ ”آخری زمانے میں جب لوگوں کی نیتیں خراب ہو چکی ہوں گی‘ان میں ملاوٹ آچکی ہو گی‘تو وہ احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خیرات کریں گے تو ان کو اتنا اجر نہ ملے گا جتنا میرے صحابہ میں سے کسی شخص کو رائی کے ایک دانے کے برابر خیرات پر ملے گا“اجر وثواب میں اس فرق کا سبب اخلاص اور خالصیت ہے۔اسی لیے نبی پاکؐ نے فرمایا کہ”مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہے“منافق عمل پر زیادہ زور دیتا ہے کیونکہ عمل نظر آنے والی شے ہے اور اس کے دنیاوی اثرات و نتائج بھی ظاہر ہوتے ہیں۔منافق کی پوری توجہ نیت کے بجائے عمل کو بڑھانے پر ہوتی ہے کیونکہ اس کے عمل کی غر ض و غائت‘ریا اور دکھلاوا ہے اور اسے دنیا میں مدح سرائی مقصود ہے اس لیے وہ نیت کو رد کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نیت لوگوں نے نہیں دیکھنی اور اس کے ظاہری فوائد اور ثمرات بھی مجھے حاصل نہیں ہوتے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسی جانب متوجہ فرمایا”حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اس کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کریں“یعنی اس کا کامل اطاعت میں ایسا اخلاص ہو کہ نیت وتوجہ الی اللہ رہے اس نیت اور توجہ میں کوئی ملاوٹ نہ ہو اور جو سارے مذاہب اور ادیان سے منہ پھیر کر دین حق کی طرف ہو جائے اور اپنے راستے میں اتنی استقامت اور کامل یکسوئی کے ساتھ سیدھا چلے کہ کسی قدم پر بھی وہ دائیں بائیں لغزش نہ کھائے۔لطف کی بات یہ ہے کہ اگر محض نیت حسنہ ہو اور عمل کسی مجبوری سے رہ جائے تو اس نیت کا بھی اجر ہے لیکن اگر محض عمل نیک ہو اوراس کے پیچھے نیت نیک نہ ہو تو نیک عمل بھی کسی اجر کا باعث نہیں بنتا بلکہ رائیگاں جاتا ہے۔گویا نیت بغیر عمل کے بھی درجہ اور ثواب دیتی ہے جبکہ بغیر نیت کے عمل درجہ ثواب بھی نہیں دیتا۔اگر نیت باطلہ آجائے تو نہ صرف عمل اجر سے محرو م رہ جائے گا بلکہ باعث عذاب بھی ہو گا عمل کی قبولیت یا مردودیت عمل کے کمال یا عذاب میں بدل جانے کی کنجی نیت میں ہے۔بعض لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگرنماز میں نیت چونکہ دکھلاوا اور ریا کاری ہوتی ہے لہذا وہ نماز بھی ان کے لئے دوزخ کے عذاب کا باعث بن جاتی ہے۔نماز تو پڑھی مگر نیت باطل ہونے اور اس میں رہا ہونے کی وجہ سے نماز اس کے اجر کو ضائع ہونے سے نہ روک سکی اور نہ ہی اس کو دوزخ میں پھینکے جانے سے روک سکی۔اس طرح نیت باطلہ نے پورا حال بدل دیا۔نیت وعمل کے حوالے سے قرآن پاک کا قاعدہ ہے کہ نیت ہر عمل کی قبولیت و مردودیت اور ثواب و عذاب کی کنجی ہے اگر ہم چاہیں تو زندگی کا ہر لمحہ عبادت بنا لیں لیکن افسوس کہ ہم نے اپنی زندگی بے کار کر رکھی ہے۔صرف نیت
کا مسئلہ اگر سمجھ لیا جائے تو ہماری پوری زندگی بدل جائے اور جو کام بھی کرنے لگیں یہ دیکھیں کہ یہ کام اللہ کی رضا کا ہے۔اللہ اور اس کے رسولؐ کے امرکی متابعت و مطابقت میں ہے یعنی اس کا تعین کر لیں کہ وہ کام اللہ کے حکم کے خلاف نہ ہو کیونکہ ہر وہ کام جو مباحات زندگی میں سے ہے اگر اللہ کے لیے اس کی نیت کر لی جائے تو وہ عبادت ہو جائے گی اور اس کا اجر وثواب ملے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں