شاہد جمیل منہاس/ ترقی پسندمعاشرے کی خصوصیت اورنشانی یہ ہے کہ ترقی کرنے کاجذبہ لے کرشب وروزمحنت کرکے آگے بڑھنے کاعزم رکھنے والے عوام کاسمندراقوام عالم کونظرآرہاہوتاہے۔پھردنیااس معاشرے کی مثالیں دے کرآنے والی نسلوں کوآگے بڑھنے کاعزم اورحوصلہ دے کرتحریک پیداکیاکرتی ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے پورے ملک کے حالات وواقعات کوسامنے رکھ لیں اورپھرسوچیں کہ ہم یعنی یہ قوم کہاں کھڑی ہے۔ جس معاشرے میں پڑھے لکھے اورباشعورطبقے کوذلیل وخوارکیاجائے،جاہل اورظالم افرادکی حوصلہ افزائی کی جائے وہ معاشرہ کیسے ترقی کرسکتاہے؟ جس معاشرے میں عورتوں کی عزت سے کھیل کرفخرمحسوس کیاجائے اس معاشرے پرخداکاقہرنازل نہ ہوتواورکیاہو؟ جس معاشرے میں معصوم بچوں سے صبح تاشام تلک مزدوری کرواکروالدین سکون محسوس کریں وہ معاشرہ قہرآلودنہ ہوتواورکیاہو؟جس معاشرے میں حبس بے جامیں رکھ کرشریف النفس افرادکوسیدھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے اس معاشرے کی آنے والی نسلیں کس ڈگرپرچلیں گی؟اورپھرجس معاشرے کے والدین اپنی اولادکوگھرسے سکول بھیج کربے سکون رہیں اس معاشرے کی فضاکے حال ومستقبل سوگوارنظرآتے ہیں۔ ہم بھی کیاخوب لوگ ہیں۔قلم سے ازاربندڈالتے ہیں،ڈرائیورکواستاداوراستادکوماسٹرکہتے ہیں،نجومی کوپروفیسر،زبان درازکودانشور،دولت مندکوبڑاآدمی اورغریب ومسکین فردکوچھوٹاآدمی،جھوٹے اورفراڈیے کوبڑاسیاست دان،نکمے کونواب اورمیراثی کو”سٹار“کہتے ہیں اورخواب دیکھتے ہیں ترقی کے۔ اس معاشرے کے دروبام عجیب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ہرآنے والادن گزشتہ اوربیتے ہوئے شب وروزسے بدترہوتاچلاجارہاہے۔ہراچھی روایت ہم ترک کرچکے ہیں اوربری روایات دن بدن پنپ رہی ہیں۔کسی کے پاس کھانے کے لئے ایک وقت کی روٹی نہیں اورکسی کے پاس روٹی کھانے کے لئے وقت نہیں ہے۔کوئی اپنوں کے لئے روٹی چھوڑدیتاہے اورکوئی روٹی کے لئے اپنوں کوچھوڑدیتاہے۔یہ دنیابھی کتنی نرالی ہے،گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی جاتی ہے۔پہلے مسجدیں کچی اورنمازی پکے ہوتے تھے اورآج مسجدیں پکی اورنمازی کچے،بالکل ریت کے گھروندوں کی طرح۔پہلے پیسہ ہاتھ کی میل کہلایاکرتاتھااورپیاردلوں کاسکون ہواکرتاتھا۔آج پیارہاتھ کی میل اورپیسہ دل کاسکون ہے۔واہ رے انسان!اقوام عالم کی تاریخ کے اوراق پلٹیں توپتاچلتاہے کہ ہرکامیاب انسان اللہ کے فضل وکرم کے بعدوالدین اوراساتذہ کی دعاؤں کی وجہ سے کامیاب ہواہے۔کہاجاتاہے کہ باادب بامراداوربے ادب بے مراد۔کسی انسان کی کامیابی اورناکامی اس ادب کی کچھ اس طرح سے مرہون منت ہے کہ جیسے انسانی جسم دوٹانگوں،دوہاتھوں اوردوبازوؤں کے ساتھ ساتھ بے شماراعضاء سے مل کرمکمل ہے مگردل کے بغیرکچھ بھی نہیں۔اس میں کچھ شک نہیں کہ محنت کرنے والااورمحنت نہ کرنے والاکبھی برابرنہیں ہوسکتا۔لیکن یادرہے کہ عقل ومحنت پرگھمنڈکرنے والے ہمیشہ منہ کی کھایاکرتے ہیں کیونکہ عقل بہرحال ناقص ہے اوراللہ کافضل وکرم ہی سب کچھ ہے۔اللہ جسے کامیاب کرناچاہے اسے عقل ودانش عطاء کردیاکرتاہے اورجسے ناکام کرناچاہے اس کی عقل،سماعت اوربصیرت پرمہرلگادیتاہے۔دنیاوی اعتبار سے دنیاداروں کوسمجھانے کے لئے خالق کائنات نے کتنے پیارے پیرائے میں کھلاچیلنج دے کریہ بات سمجھائی ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے کہ”کہوکہ بھلایہ پانی جوتم پیتے ہواوراستعمال کرتے ہواگرخشک ہوجائے توکون ہے سوائے اللہ کے جوتمہارے لئے صاف پانی کاچشمہ جاری کرے۔“دورجدیدمیں ہم لوگ رسم ورواج اورعیش وعشرت کے اس قدرعادی ہوچکے ہیں کہ موت پرایمان تک کمزورترین ہوچکاہے۔گناہوں کی دلدل میں دھنستی ہوئی یہ قوم گل وبلبل کے قصوں سے باہرآنے کاتصوربھی نہیں کرپارہی۔اخلاقی اعتبارسے ہم اس قدرگرچکے ہیں کہ زمانہئ جاہلیت کی مثالیں ہمارے لئے بے معنٰی ہوچکی ہیں۔اس دورکی ایک مثال ہم اکثردیاکرتے ہیں کہ بچیوں کوزندہ درگورکرکے اپنی عزت وناموس کوبچایاجاتاتھا۔جبکہ حقیقت میں وہ لوگ ناموس کوخاک میں ملارہے ہوتے تھے۔آج کے اس دشت کی جاہلیت زمانہئ جاہلیت کے دورسے بدترین نظرآتی ہے۔اس چھوٹے سے کالم میں اس ارض پاک پرہونے والی حرکات وسکنات کوبیان کرناممکن نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اس کلمہ گوقوم کوہوش کے ناخن کی لیناہوں گے ورنہ تباہی سے بچناناممکن ہوجائے گا۔چلیں آئیں آج ہم سب اپنی آخرت سنوارنے کی غرض سے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
281