185

جنسی جرائم کا انسداد

پاکستان میں ایک عرصے سے جنسی جرائم اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور وقفے وقفے سے دل خراش اور تکلیف دہ خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں ایک عرصہ قبل قصور کے علاقے حسین خالوالا میں بڑے پیمانے پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا انکشاف ہوا تھا اور اس عصمت دری کو وڈیوز کی شکل دے کر ڈارک ویب کی دنیا میں فروخت کرکے کروڑوں ڈالر کمائے گئے اس واقعے پر میڈیا نے بھرپور انداز میں آواز اٹھائی لیکن افسوس مجرموں تک رسائی نہ ہو سکی اسی طرح کچھ عرصہ قبل موٹروے پر بیرون ملک سے پاکستان منتقل ہونے والی خاتون کے ساتھ عصمت دری کا واقعہ پیش آیا جس پر پوری قوم کے سر شرمندگی کے ساتھ جھک گئے معصوم زینب کے دلخراش واقعہ نے ایک عرصہ تک لوگوں کے اذہان و قلوب پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے رکھے اسی طرح حجرہ شاہ مقیم میں ایک معصوم بچی کی عصمت دری کے بعد اس کی لاش کو کھیتوں میں پھینک دیا گیا ان تمام واقعات کے حوالے سے لواحقین حکومت کے سامنے استدعا کرتے رہے لیکن افسوس کہ ان کی شنوائی نہ ہوئی چند روز قبل ایک مرتبہ پھر انتہائی دل سوزخبر سننے کو ملی کہ پتوکی میں موٹر سائیکل سوار کو ڈکیتی کا نشانہ بنایااور اس موقع پر باپ کی موجودگی میں ہی اس کی پندرہ سالہ بیٹی کو بے آبرو کیا گیا ابھی حال ہی میں ملتان سے کراچی جانے والی 26ڈاؤن زکریا ایکسپریس میں ایک خاتون کے ساتھ ٹرین عملہ کی اجتماعی زیادتی کا بھیانک کیس سامنے آیا ہے جو کہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے اورنگی ٹاؤن کراچی کی رہائشی خاتون کو دوران سفر ٹکٹ چیکر‘انچارج اور ایک شخص نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا اور کسی کو شرم وحیا نہ آئی کہ وہ کیا کر رہے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بعد حکومت کے نمایاں ذمہ دار موقع پر تو پہنچ جاتے ہیں لیکن مظلوم خاندان کی صحیح طریقے سے اشک شوئی نہیں ہو پاتی جنسی جرائم کے انسداد کے حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات بالکل واضح ہیں اللہ تعالیٰ سورۃ نور کی آیت نمبر دو میں ارشاد فرماتے ہیں کہ”زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مردکو کوڑے ماروپس ان دونوں میں سے ہر ایک کو 100کوڑے مارو اور نہ پکڑے تمہیں ان دونوں کے متعلق نرمی اللہ کے دین میں اگر ہو تم ایمان لائے االلہ اور یوم آخرت پراور چاہیے کہ حاضرہو ان دونوں کی سزا کے وقت مومنوں میں سے ایک گروہ“احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ سزا جس کا ذکر سورۃنور میں کیا گیا غیر شادی شدہ افراد کیلئے ہے جبکہ شادی شدہ اگر بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کو سنگسار کر دینا چاہیے اس کے مدمقابل معصوم اور نابالغ بچوں کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرنے والے خصوصی سزاؤں کے مستحق ہیں اس لئے کہ یہ لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ٹھہرتے ہیں اور فساد فی الارض کی سزا کی شریعت اسلامیہ میں سنگین بتائی گئی ہے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 33میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ”بے شک سزاان لوگوں کیلئے جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور کوشش کرتے ہیں زمین میں فساد مچانے کی یہ ہے کہ وہ قتل کر دئے جائیں یا سولی پر چڑھا دئے جائیں یا کاٹ دئے جائیں ان کے ہاتھ اوران کے پاؤں مخالف سمتوں سے یا وہ نکال دئے جائیں زمین یعنی ملک سے یہ ان کیلئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کیلئے آخرت میں بڑا عذاب ہے“ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ جب وحشت ناک اور دردناک سانحے کی خبر سننے کو ملتی ہے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے آواز اٹھائی جاتی ہے تو انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں اس موقع پر مجرموں سے اظہار یکجہتی کیلئے میدان عمل میں اترآتی ہیں اور سزائے موت جیسی سزاؤں کی بھرپور انداز سے مخالفت اور مذمت کرکے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار
دیتی ہیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی حقوق کا حقدار وہ شخص ہے جو امن کی زندگی گزار رہا ہو اور ایسے شخص کو بھی یقینا انسانی حقوق حاصل ہونے چائیں جو دوسروں کو تکلیف اور ضرر پہنچانے کی نیت اور ارادہ نہ رکھتا ہولیکن جو شخص سرعام معاشرے میں فساد اور انتشار پھیلائے اس کیلئے انسانی حقوق کی بات کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں درحقیقت مجرم کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا مجرموں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے اسی وجہ سے کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی میں ایک قراردار پیش کی گئی تھی کہ اگر کوئی معصوم بچوں کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرے گا تو ایسے مجرموں کو سرعام سزائے موت دی جائے گی جس کا مقصد دوسرے جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا تھاعہد رسالت میں اس قسم کے مجرموں کے ساتھ عبرتناک سلوک کیا جاتا رہااسی وجہ سے جزیرۃ العرب آپؐ کی حیات مبارکہ میں ہر قسم کے جرائم سے پاک ہو گیا تھا صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ قبائل عکل وعرینہ کے کچھ لوگ نبی کریمؐ کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے اور دین اسلام میں داخل ہو گئے پھر انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبیؐ ہم لوگ مویشی رکھتے تھے کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے اس لئے ہم صرف دودھ پر بسر اوقات کیا کرتے تھے اور انہیں مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تو نبی کریم ؐ نے کچھ اونٹ اور چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور فرمایا کہ ”انہی اونٹوں کا دودھ پیو تو تمہیں صحت حاصل ہو جائے گی“وہ لوگ چراگاہ کی طرف گئے لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے پھر گئے اور نبی کریم ؐ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے اس کی خبر آپ ؐ کو ملی تو آپ ؐ نے چند صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا وہ افراد پکڑ کر مدینہ لائے گئے آپ ؐ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئے گئے کیونکہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھااور انہیں حرہ کے کنارے چھوڑ دیا گیا آخر وہ اسی حالت میں مر گئے رسول اللہؐ انتہائی در گزر فرمانے والے اور نہایت شفیق اور مہربان طبیعت کے مالک تھے لیکن اس کے باوجود آپ ؐ نے سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزائیں دے کرامت کو یہ سبق دیا کہ جب کو شخص سطح انسانیت سے گر کر حیوانیت کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے اور معاشرے میں انتشار اور بگاڑپیدا کرتا ہے تو وہ کسی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں رہتا خلفائے راشدین نے بھی نبی کریم ؐ کی سنت مطہرہ سے حاصل ہونے والے سبق کو اپنے عہد خلافت میں جاری رکھا اور جب بھی کبھی سنگین نوعیت کے جرم کا ارتکاب کیا گیا تو مجرموں کو قرار واقعی سزا دی گئی نبی کریمؐ نے انسانی جان کی حرمت کو بہت زیادہ اہمیت دی سنن ابی داؤد میں حضرت عبادہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ”جس شخص نے کسی مومن کو ناحق قتل کیا پھر اس قتل پر خوش بھی ہوا تو اللہ اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا“ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہرہرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمؐکا یہ فرمان سنا کہ ”تم میں سے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ نہ کرے اس لئے کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگادے اور وہ ناحق قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جاپڑے“ ان احادیث مبارکہ سے اس بات کو جانچنا مشکل نہیں کہ اسلام میں انسانی جان کی حرمت کو کس انداز میں واضح کیا گیا ہے چنانچہ جب بھی کبھی معاشرے میں قتل و غارت گری یا عصمت دری کا کوئی واقعہ ہو تو ہماری ہمدردیاں مجرم و ظالم کے بجائے مقتول ومظلوم کے ساتھ ہونی چائیں اور قاتل اور مجرم کق قرارواقعی سزا ملنے پر ہمیں کسی قسم کا افسوس کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اس لئے کہ کڑی سزاؤں کے نفاذ ہی سے معاشرہ جرائم پیشہ عناصر سے پاک ہو سکتا ہے اور امن وسکون کے راستے پر چل سکتا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں