گوجرخان (طالب حسین ارائیں‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ) پاکستان بھر کی طرح این اے 52 گوجرخان میں بھی سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنے نامینیشن فارم جمع کروا چکے جن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ پرویزاشرف‘ن لیگ کے راجہ جاوید اخلاص‘ تحریک انصاف کے فرخ سیال قابل ذکر ہیں۔نو مئی سانحہ کے بعد پی ٹی آئی کو کئی مشکلات درپیش ہیں۔تاہم اس حلقے میں تحریک انصاف پی پی اور ن لیگ کی طرح اب بھی ایک بڑی جماعت کے طور موجود ہے۔لیبک اس حلقے میں خاصہ ووٹ بینک رکھتی ہے لیکن اتنا نہیں کہ وہ یہاں سے سیٹ نکال سکے۔پیپلز پارٹی کے راجہ پروپز اشرف اپنی اسپیکر شپ کے دوران علاقے میں بجلی کے پول ٹرانسفرمرز، پختہ گلیاں وغیرہ کے کام کرواتے رہے ہیں۔لیکن کام کروانے کاانداز اختلافی رہا کہ جن کی گلی بن گئی وہ تو راضی ہوا جس کی نہ بن سکی وہ ناراض ہے ایسے کئی نارض لوگ حلقے میں موجود ہیں تاہم راجہ پرویز اشرف پارٹی سے ہٹ کرحلقے میں اچھا خاصہ ووٹ بینک رکھتے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا ووٹ صرف راجہ پرویز اشرف کی ذاتی شخصیت کا ہی ووٹ ہے۔ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ جاوید اخلاص بھی حلقے میں ووٹرز کے ساتھ رابطے میں رہنے والی شخصیت ہیں انہوں نے گذشتہ پانچ برس روزانہ کی بنیاد پر حلقہ کی عوام سے رابطہ رکھا وہ دن میں۔تین تین چار چار مقامات پر لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے رہے جس کا انہیں اب الیکشن میں فائدہ ملنے والا ہے لیکن وہ اپنے دور میں بے شمار ترقیاتی کام کروا کربھی کیش نہ کروا سکے
اس وقت وہ اپنے منصوبوں پر اپنا اور اپنے ایم پی ایز کے نام کی تختیاں لگوانے کے بجائے غیر منتخب افراد کے نام کی تختیاں لگواتے رہے جس سے عوام میں یہ تاثر موجود ہے کہ راجہ جاوید اخلاص اپنے دور میں کام نہ کروا سکے تاہم اس کے باوجود وہ راجہ پرویز اشرف کے مدمقابل ایک مضبوط امیدوار کے طور موجود ہیں چونکہ راجہ پرویز اشرف نے اپنے نیچے صوبائی نشست پی پی 8 پر اپنے بیٹے کو امیدوار بنایا ہے اس سے عوام میں کوئی زیادہ اچھا تاثر نہیں گیا لوگ اسے موروثی سیاست کے طور دیکھ رہے ہیں اب جو ووٹ راجہ پرویز اشرف کے ساتھ جڑے ہیں وہی ان کے بیٹے کو بھی ملیں گے جبکہ راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ جو صوبائی امیدوار ہوں گے ان کا پارٹی سے ہٹ کر اپنا ووٹ بینک بھی ہوگا جو راجہ جاوید اخلاص کے لیے پلس پوائنٹ ہے۔اگر حلقہ 8 سے مسلم لیگ چوہدری افتخار وراثی اور حلقہ 9 سے شوکت بھٹی کو راجہ جاوید اخلاص کے نیچے ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں تو راجہ پرویز اشرف کو بہت سخت مقابلہ درپیش ہوگا۔
غربی گوجرخان میں مقابلہ پی پی اور ن لیگ کے درمیان ہوتا دیکھائی پڑتا ہے جبکہ گوجرخان شہر کی بات کریں تو یہاں پیپلز پارٹی مقابلے میں شاید تیسرے نمبر پر ہو گوجرخان شہر میں مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ہوتا نظر آرہا ہے جبکہ گوجرخان شرقی میں میں بھی مقابلہ ن لیگ اور پی ٹء آئی ہی میں ہوتا نظر آتا ہے شرقی گوجرخان میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بہت کم ہے 2018 میں راجہ پرویزاشرف مسلم لیگ کی باہمی چپقلش کے باعث لیگی رہنماء افتخار وارثی اور شوکت بھٹی کی مدد سے ہی یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ 2018 میں غیبی قوتوں کی تمام تر سپورٹ کے باوجود حلقہ 52 سے پی ٹی آئی پی شکست سے دوچار ہوئی تھی اس وقت پی ٹی آئی کا ٹکٹ چوہدری عظیم جیسے پرانے سیاسی کھلاڑی کے پاس تھا جو اب پی ٹی آئی کو چھوڑ چکے ہیں جس کا پی ٹی آئی پر یقیناً منفی اثر پڑے گا کیونکہ تھاتھی اور اردگرد کے علاقے میں چوہدری عظیم بھی اپنا ایک حلقہ اثر رکھتے ہیں۔پی ٹی آئی کا جو بھی امیدوار میدان میں اترے گا وہ چوہدری عظیم کی طرح جاناپہچانا اور ذاتی ووٹ بینک سے رکھنے والا نام نہیں ہوگا اس لیے پی ٹی آئی کو ن لیگ اور پیلپز پارٹی کے مدمقابل سخت محنت کرنا ہو گی عوام کی اکثریت یہ بھی دیکھتی ہے کہ اسیٹبلشمنٹ کا جھکاؤ کس جماعت کی جانب ہے جس جانب جھکاؤ محسوس ہو عوام اسے جیتنے والی جماعت سمجھ اسے ووٹ سے نوازدیتی ہے۔ہمارا یہی المیہ رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا فیصلہ ہمیشہ غیبی طاقتیں کرتی ہیں۔یہ ہوتا رہا ہے اور شاید ہوتا رہے گا۔