
لمپی سکن وائرس نامی بیماری گذشتہ ایک صدی سے جانوروں میں تشخیص ہو رہی ہے جس طرح انسانوں میں چیچک یا چکن پاکس کی بیماری ہوتی ہے یا جانوروں میں شیپ پاکس یاگھٹ پاکس بیماری ملتی ہے یہ بھی اسی طرح کی ایک بیماری ہے جس میں جانور کے جسم پر دانے نمودار ہوتے ہیں اور جسم کے اندر پھیلتے ہیں اور زبان پر بھی آ جاتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ان دانوں میں پیپ بھر جاتی ہے اور ان دانوں میں ہونے والی تکلیف کی وجہ سے جانور بیٹھ نہیں سکتے1929ء میں یہ بیماری افریقہ میں پہلی بار تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد بھارت‘سری لنکا‘انڈونیشیا میں بھی اس بیماری کی موجودگی کی رپورٹیں آئیں کچھ عرصہ قبل ایک ریسرچ جرنل میں ایک آرٹیکل شائع ہوا تھا جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو جانوروں کی اس بیماری کے متعلق محتاط ہونا چاہیے کیونکہ خطے میں موجود یہ بیماری پاکستان میں بھی جانوروں اور مویشیوں کو متاثر کر سکتی ہے دنیا بھر سے بذریعہ ٹرانسپورٹ جب پھل اور دیگر اجناس کی تجارت ہوتی ہے تواس کے ساتھ مکھیاں‘مچھر بھی آجاتے ہیں جو خطہ میں موجود بیماریوں کے پھیلاؤکا سبب بنتے ہیں ان میں خون چوسنے والی مکھیوں ایڈز نامی مچھر جو زرد بخار اور ڈینگی وائرس جیسے امراض کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے وہ لمپی سکن ڈیزیز کے وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے سندھ کے محکمہ لائیو سٹاک کا کہنا ہے کہ لمپی سکن ڈیزیزاس وقت سندھ کے مختلف اضلاع میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کی شدت کراچی اور ٹھٹھہ کے اضلاع میں زیادہ ہے دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ دیسی گائے کی نسل اس بیماری سے جلد صحت یاب ہو رہی ہے جبکہ جو غیر ملکی اور کراس نسلیں ہیں ان میں یہ وائرس زیادہ پایا جاتا ہے چونکہ ان جانوروں کی تعداد کراچی اور ٹھٹھہ میں زیادہ ہے اس لئے وہاں شدت زیادہ دیکھی جارہی ہے جانوروں میں لمپی سکن وائرس کا پہلا کیس گذشتہ سال نومبر میں سامنے آیا تھا جس کی رپورٹ وفاقی حکومت کو بھجی گئی جہاں سے وائرس کی تصدیق ہوئی تاہم ملک میں اس وائرس کی ویکسین دستیاب نہیں صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ جلد ویکسین درآمد کی جائے جانوروں اور اس کا علاج کرنے والوں کو انسولیشن کرنے کی ضرورت ہے‘نہ صرف جو جانور اس بیماری میں مبتلاہیں ان کو الگ کرنا ہے بلکہ اس جانور کا علاج کرنے والا ڈاکٹر بھی کسی دیگر جانور کا علاج نہ کرے کیونکہ اس سے وائرس پھیلنے کے امکانات ہیں اسی طرح جو عملہ گوبر یا دیگر صفائی کرتا ہے اس کو بھی صحتمند جانوروں سے الگ رہنا چاہیے اس وائرس کے باعث مویشیوں میں شرح اموات تین فی صد سے لے کر ساٹھ فی صد تک ہو سکتی ہے اگر بڑے باڑے یا ریوڑہیں تو اس اموات کی شرح زیادہ ہو سکتی ہے اگر اس کا علاج کیا جائے تو جانور تین سے چھ دن میں صحتمند ہو گا اور اس کے علاج میں شیپ پاکس یا گوٹ پاکس ویکسین اور اینٹی بائیوٹک ادویات دی جا سکتی ہیں سوشل میڈیا پر بیمار گائیوں کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد کراچی میں گائے کے گوشت کی کھیپ میں کمی آئی ہے اور مرغی کے گوشت کی کھیپ بڑھ گئی ہے جس کے باعث مرغی کے گوشت کی فی کلو قیمت بعض علاقوں میں پانچ سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے گائے کے گوشت کی فروخت ساٹھ فی صد تک متاثر ہوئی ہے کراچی شہر میں دو
قانونی ذبحہ خانے میں جہاں روزانہ دس ہزار بڑے جانور ذبحہ کئے جاتے ہیں جن میں بھینسیں بھی شامل ہیں جبکہ شہر میں بیس ہزار جانوروں کی کھیپ ہے حکومت سندھ نے کراچی سمیت صوبے بھر میں مویشی منڈیوں پر پابندی عائد کر دی ہے جس سے جانوروں کی خریداری متاثر ہو رہی ہے گوشت حاصل کرنے کیلئے روزانہ تین سے پانچ ہزار جانور کراچی لائے جاتے ہیں سپر ہائی وے پر ڈی ایم سی ملیر دو سو سے پانچ سو روپے فی جانور فیس وصول کرکے جانوروں کیلئے ہیلتھ سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مقام پر لائیو سٹاک کی ٹیم موجود ہوجس گائے میں یہ بیماری پائی جاتی ہے اس کو کراچی میں داخل ہونے سے روک کر صرف صحت مند مویشیوں کو داخلے کی اجازت دی جائے منڈیوں پر پابندی سے لوگوں میں خوف وہراس پھیلا ہے اور کاروبار خطرے میں پڑ گیا ہے یہ وائرس انسانوں کو متاثر نہیں کر تا اس سے انسانی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے دودھ پیئیں گوشت کھائیں یہ انسانی صحت کیلئے مضر نہیں ہے اس بیماری کے متعلق جو تحقیق موجود ہے اس کے مطابق دودھ اور گوشت کے ذریعے اس کا انفیکشن انسانوں میں منتقل نہیں ہوتا ہے ہر وائرس کا اپنا مزاج ہوتا ہے ضروری نہیں ہے کہ جو وائرس جانورمیں زندہ رہتا ہے وہ انسان کو بھی متاثر کرے کچھ ایسے وائرس بھی ہوتے ہیں جو انسان اور جانور دونوں کو متاثر کر سکتے ہیں کچھ وائرس ہیں جو صرف ایک کو متاثر کرتے ہیں گوشت کی برآمد جاری ہے ان کے ذبحہ خانے بالکل الگ ہیں پاکستان کے محکمہ شماریات کے مطابق گذشتہ سال تقریبا ایک کروڑ ٹن گوشت برآمد کیا گیا تھا عید قربان کے جانوروں کی بھی بڑی منڈی ہے جہاں ملک بھر سے گائے بچھڑے فروخت کیلئے لائے جاتے ہیں اور شہری مقامی اور غیر ملکی نسل کے بڑے جانور وں میں دلچسپی رکھتے ہیں یہ بیماری گائیوں میں قوت مدافعت بڑھنے تک رہے گی جبکہ ویکسین ابھی موجود نہیں ہے سارا سال عید قربان کا انتظار کرنے والا کسان اور بیوپاری دونوں ہی اس سال پریشان ہیں پاکستان کے مختلف صوبوں میں بڑے جانوروں کی کثیر تعداد جن میں گائے‘بیل اور ان کی اقسام شامل ہیں لمپی سکن وائرس کا شکار ہیں صوبہ سندھ سے شروع ہونے والی یہ بیماری ملک کے دیگر حصوں میں پھیل چکی ہے جو مویشیوں کیلئے بڑا خطرہ ہے جبکہ اس بیماری کا شکار ہونے سے ہزاروں کی تعداد میں جانور اب تک مر چکے ہیں اور لاکھوں جانور اس سے متاثر ہوئے ہیں لمپی وائرس کا شکار ہونے والے جانور کو با آسانی پہچانا جا سکتا ہے اس بیماری میں مبتلا جانور کو تیز بخار ہوتا ہے وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے جانور ڈپریس ہوجاتا ہے اور اس کی حرکت بھی کم ہو جاتی ہے اور اس کی جلد پر بڑے بڑے دانے بن جاتے ہیں جو چار سنٹی میٹرتک بڑے ہو سکتے ہیں لمپی وائرس کے شکار جانور کے ٹھیک ہونے کا وقت تقریبا دو ہفتے ہوتا ہے لیکن اگر جانور اس بیماری سے شدید بیمار ہو جاتے ہیں یعنی اس کے دانے پھٹ جائیں اور ان میں پیپ نکلنے لگے یابیماری شدت اختیار کر لے تو اس صورت میں جانور مر جاتا ہے اس لئے ایسا جانور جس کی بیماری کا پتہ چل جائے تو اس کو فوری طور پر دیگر جانوروں سے الگ کر دیں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں